وریندر پاسوان کی ہلاکت: اہل خانہ کی مصیبتوں میں اضافہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-10-2021
وریندر پاسبان کی ہلاکت: اہل خانہ کی مصیبتوں میں اضافہ
وریندر پاسبان کی ہلاکت: اہل خانہ کی مصیبتوں میں اضافہ

 

 

راجیورنجن/ بھاگلپور(بہار)

خاندان سےسیکڑوں کلومیٹردور رہنےوالےافراد کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ تہواراپنے اہل خانہ کے ساتھ منائیں۔ کشمیر کے لال چوک پر گولگپے بیچنے والے وریندر پاسوان بھی پچھلے ایک سال سے ایسا ہی خواب دیکھ رہے تھے، تاہم ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

اس سے پہلے کہ وریندرپاسوان کےتہوارمنانے کا خواب پورا ہوتا، دہشت گردوں نے انہیں موت کی ابدی نیند سلا دیا۔ ان کی موت نے گویا اہل خانہ کی کمر توڑ دی ہے۔

آدمی اپنے خانوادے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا ہے، وہ اپنی زندگی کو خطروں میں ڈال کر اپنے اہل و عیال کے لیے گوہر نایاب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے لیے ہر ممکن جدو جہد کرتا ہے۔

ایسی ہی ایک کہانی ویرندرپاسوان کی ہے،حالاں کہ یہ کہانی انتہائی درد ناک ہے۔ جن پرقرض اور چھ بچوں کی پرورش کا بوجھ نہ ہوتا تو وہ حسن پورسے لال چوک تک 2117 کلومیٹرکا لمبا سفر طےنہ کرتے۔

وریندر پاسوان کا تعلق ریاست بہار کے ضلع بھاگلپور کے جگدیش پورزون کے گاوں حسن پور سے ہے۔ جسے سری نگرمیں دہشت گردوں نے کی گولی مار کر ہلاک کردیا۔

حالانکہ دو سال پہلے وریندر پاسوان کولکاتہ میں لیتھ مشین چلا کراپنے خاندان کا گزارہ کرتے تھے، لیکن مہنگائی اور بڑھتی ہوئی ضروریات نے انہیں کولکاتہ سے کشمیر ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔

آج صورت حال یہ ہے کہ وریندر پاسوان کی بیماراہلیہ پوتول دیوی ان کی یادوں میں کھوئی رہتی ہیں۔

 خیال رہے کہ حسن پور جگدیش پور سرکل ہیڈ کوارٹر سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جہاں ہر جگہ سبزہ زار ہے،جہاں ان دنوں دھان کی فصل کی کٹائی کا موسم چل رہا ہے۔

جب کوئی مسافر گاوں میں داخل ہوتا ہے تو دھان کے چاول کی خوشبو انہیں معطر کر دیتی ہے۔ ویرندرپاسوان کا گھر بھی انہیں کھیتوں کے کنارے بسےہوئے گاوں میں واقع ہے۔

ویرندر پاسوان کی بڑی بیٹی کنچن نے بتایا کہ ان کے والد تین بھائی ہیں۔ بڑے چاچا کا نام نرنجن پاسوان اور چھوٹے چاچا کا نام ولیندر پاسوان۔

اس کے چاچا ولیندر پاسوان اور اس کے والد وریندر پاسوان جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے معروف مقام لال چوک پر گول گپے بیچا کرتے تھے۔

وریندر پاسوان کے چھ بچے ہیں۔ چار لڑکیاں کنچن، نیتو، نیہا، اور مونیکا ہیں، جب کہ دو لڑکے وکرم اور سومن ہے۔

وریندر پاسوان کا بیٹا وکرم 19 سال کا ہے اوران دنوں بارہویں جماعت کا طالب علم ہے۔

awaz

وریندر پاسوان کی اہلیہ بیمار رہنے لگیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کہا کرتے تھے کہ اگر بچے تعلیم یافتہ ہو جائیں توانہیں مزدوری نہیں کرنی پڑے گی۔

اس لیے وہ گھر سے دور کام کرنے گئے ہوئے تھے۔

پوتول دیوی نے بتایا کہ ان کے شوہر پہلی مرتبہ کشمیر گئے تھے۔

وہیں اس موقع پر ولیندر پاسوان کی اہلیہ رنکو دیوی نے کہا کہ یہاں گاوں میں کام نہیں ہے،اس لیے یہاں کے تقریبا80 افراد کشمیر جا کر کام کر رہے ہیں، محنت مزدوری کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہاں چوں کہ اب دہشت گردوں کا خوف بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اس لیے وہاں سے مزدور اب واپس اپنے گاوں لوٹ رہے ہیں۔

پوتول دیوی کے شوہر دسہرا کے موقع پر آنے والے تھے، وہ گذشتہ برس بھی نہیں آپائے تھے،کیوں کہ لاک ڈاون اور کورونا وائرس کی وجہ سے راستے بند تھے، اگرچہ انہوں نےگھر آنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔

وریندر کی بیٹی کنچن بتاتی ہیں کہ ہر ماہ ان کے والد دس بارہ ہزار بھیجا کرتے تھے، جس سے ان کی ضرورتیں پوری ہوتی تھیں۔

خیال رہے کہ وریندر کی تین بیٹاں شادی کے لائق ہوگئی ہیں اور گاوں کے مکھیا انیرودھ مہتو نے انہیں سرکاری اسکیم کے تحت روزگار دلانے کا وعدہ کیا ہے۔

اب پوتول دیوی اس بات کو لے کر فکرمند ہیں کہ ان کی بقیہ زندگی کیسے گزرے گی ، کیوں کہ دہشت گردوں نے ان کے شوہر کر کشمیر میں مار ڈالا۔

وہ ریاستی و مرکزی حکومت سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ ان کی امداد کی جائے۔