ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
عید الفطر سماجی اور مذہبی حیثیت کا حامل ایک نہایت مہتمم بالشان تیوہار ہے، جس کی گونج عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا ایک اہم تہوارجسے منانے کے انداز میں علاقائی ثقافت، روایات اور مقامی رنگ جھلکتے ہیں۔یہی رنگ مختلف علاقائی اور مقامی ثقافتوں کو متاثر کرتاہے اور انھیں ایک نیا آہنگ بھی عطا کرتا ہے۔
اسلامی ثقافت اور معاشرے میں اس کی سماجی حیثیت بہت بلند ہے۔یہ تیوہار دراصل اتحاد و یگانگت،خوشی و مسرت اور روحانی ترقی کے مظہر کے طورپر بھی دیکھا جاتا ہے اور اسی لیے رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اس کی بھی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔رمضان چونکہ نیکیوں کے بہار کاموسم ہوتا ہے اس میں اللہ تعالی کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اور وہ بندوں کو اپنی بے پایاں رحمت سے نوازتا ہے۔رمضان کے اختتام پر منایا جانے والا یہ تیوہار شکرگزاری، مذہبی عقیدت اور جوش سے لبریز ہوتا ہے۔
عید الفطر کے موقع پر مسلمانوں کے جوش اور خوشی کی ایک الگ ہی کیفیت ہوتی ہے۔اس خوشی کو دوچند وہ اس طرح بھی کرتے ہیں کہ ایک راستے سے جاتے ہیں اور دوسرے راستے سے آتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا گیا ہے۔اس تیوہار پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی تیاریاں اور رسومات ایک خاص ترتیب سے انجام دی جاتی ہیں۔ اس انجام دہی میں فرد کی خوشیوں سے کہیں زیادہ سماج کی خوشی اور اس کا اجتماعی مفاد پیش نظر رہتا ہے اور اس کی یہ اہمیت کم قابل توجہ نہیں ہے۔
ماہ رمضان میں روزے کے علاوہ تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔دوسروں کو روزہ افطار کرایا جاتا ہے۔صاحب ثروت اور صاحب نصاب اپنے مال کی زکوۃ نکالتے ہیں۔ روزہ داروں کو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔زکوۃ کی حکمت یہ بھی ہے کہ مال ایک ہی جگہ سمٹ کرنہ رہ جائے بلکہ غریبوں تک پہنچے اسی طرح عید سے پہلے صدقہ فطر بے سہارا اور غریب لوگوں کو دیا جاتا ہے تاکہ عید کی خوشی وہ بھی منا سکیں۔دراصل عید کا یہی وہ پہلو ہے جو اس کو ایک سماجی رنگ دیتا ہے۔ اس کا مقصد غریبوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہے۔عید کا یہی وہ پیغام ہے جسے عام کیا جاتا ہے۔
عید الفطر کا موقع خوشیوں سے لبریزایک جذباتی موقع ہوتا ہے۔نئی نسل اور بچوں کے لیے تو اس دن کی اہمیت اور زیادہ ہوتی ہے۔ان کی شوخیاں اور سرگرمیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔وہ خوش نما اور نت نئے ملبوسات اور دیگر تیاریوں کا خاصااہتمام کرتے ہیں۔ویسے بھی اس ماہ میں جیسے جیسے چاند رات قریب آتی ہے عید کی تیاریوں کا سلسلہ شباب پر ہوتا چلا جاتا ہے۔گھروں کی صفائی اور سجاوٹ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔افراد خانہ اس کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں۔عید کے دن کے لیے نئے کپڑوں کی خریداری بھی ماہ رمضان کی ایک سرگرمی کہی جاسکتی ہے۔عموماًنئے کپڑوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اب تو سلے سلائے ہوئے کپڑوں کا زمانہ آگیا ہے ورنہ پہلے جب سب لوگ درزی پر ہی منحصر رہتے تھے عید کے کپڑے کی تیاری بھی ایک بڑا معرکہ تصور کی جاتی تھی۔
نماز دوگانہ کے بعد جو سب سے اہم کام ہوتا ہے وہ احباب اور رشتہ داروں سے ملاقات کا ہے۔ ایک دوسرے کے یہاں لوگ جاتے ہیں اور انھیں عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔عید مبارک کہہ کر گلے ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو دعائیں دیتے ہیں۔خاندان، دوستوں، پڑوسیوں اور دیگر لوگوں سے ملنے کا یہ سلسلہ دیر تک جاری رہتا ہے۔نماز کے بعد ہی ملنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔گھروں میں خوش ذائقہ کھانے تیار کیے جاتے ہیں، جیسے بریانی، کباب، سویاں، حلوہ اور دیگر روایتی پکوان۔اور انھیں ہر آنے والے کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔جسے وہ بڑے شوق سے تناول فرماتے ہیں۔شمالی ہندوستان کے ایک بڑے علاقے میں سوئیوں کی ڈش سب سے اہم تصور کی جاتی ہے بلکہ دسترخوان کا یہ لازمی حصہ ہوتی ہے۔شیر خورمہ بھی عید کی مقبول ترین خوش ذائقہ ڈش ہے۔چھوٹے بچوں کو عیدی دی جاتی ہے جس کا کہ انھیں بہت شدت سے انتظار رہتا ہے،جو ان کے لیے عید کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ان سرگرمیوں سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ عید کا موقع دراصل اتحاد اوریگانگت سہ عبارت ہے۔ مختلف افراد اور طبقات کو ایک دوسرے سے قریب لانے،ان کے درمیان دوریاں ختم کرنے اور محبت کے جذبے کو فروغ دینے کا یہ ایک سنہری موقع ہوتا ہے۔
سماجی زندگی میں اس کی مرکزیت اور اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ہندستان جیسے کثیر ثقافتی ور لسانی مسلک میں یہ ایک مذہب کا تیوہار نہ ہوکر تمام لوگوں کے عزائم کا ترجمان بن جاتا ہے۔اور اس دن کا لوگوں کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔تیوہار کی اسی مرکزیت کو سامنے رکھ کر شعرا نے بھی خوب خوب طبع آزمائی کی ہے البتہ شعرا کے یہاں عید کے چاند اور اس کے دیدار کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔اسی میں وہ اپنے محبوب کوبھی دیکھتے ہیں۔اس کے جور و ستم کی داستان بھی بیان کرجاتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کس قدر ظالم ہے عید کے دن بھی ملنے نہیں آتا ہے۔شعرا نے عید کو ملاقات کا سب سے اہم دن قرار دیا ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ آج ضرور ملاقات کرنی چاہیے۔دراصل آج تمام گلے شکوے دور کرنے کا دن ہے۔قمر جلالوی کا بہت مشہور شعر ہے ؎
عید کا دن گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
اسی مضمون کو عبداللہ ندیم نے ایک ذرا مختلف انداز سے باندھا ہے
اس کے بدلے میں کسی اور سے مل آئے گلے
عید کے دن بھی وہ ظالم نہیں ملنے آیا
شعرا نے عید کو محبوب سے ملاقات کا دن قرار دیا ہے۔چاند یہاں محض چاند نہیں بلکہ وہ محبوب کا استعارہ بن چکا ہے۔جسے ہم ہلال عید کہتے ہیں وہ دراصل ان کے لیے وصال محبوب ہے۔اس حوالے سے مختلف النوع مضامین کو شعرا نے اس طرح باندھا ہے کہ وہ شاعری کے باب میں مطالعہ کا ایک اہم موضوع بن چکے ہیں۔درج ذیل اشعار میں غور وفکر کے بہت سے پہلو ہیں،معنی کے ساتھ ساتھ شعرا نے لفظوں کی رعایت اور اس کے حسن کاخاص خیال رکھا ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
ہم نے تجھے دیکھا نہیں کیا عید منائیں
جس نے تجھے دیکھا ہو اسے عید مبارک
لیاقت علی عاصم
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
امجد اسلام امجد
عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا
نامعلوم
فلک پہ چاند ستارے نکلتے ہیں ہر شب
ستم یہی ہے نکلتا نہیں ہمارا چاند
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
دیکھا ہلال عید تو آیا ترا خیال
وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے
نامعلوم
دیکھا ہلال عید تو تم یاد آ گئے
اس محویت میں عید ہماری گزر گئی
نامعلوم
آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے
راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے
مصحفی
عید کے حوالے سے دلاور علی آذر کا بہت مشہور شعر ہے اور اس مضمون کو انھوں نے کیا خوب نبھایا ہے۔ کہتے ہیں
اس سے ملنا تواسے عید مبارک کہنا
یہ بھی کہنا کہ میری عید مبارک کردے
ان اشعار سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ چاند اور صبح عید کو شعرا نے کس تناظر میں دیکھا اور باندھا ہے۔ خوشی اور مسرت کا یہ دن کبھی مختلف بھی ہوسکتا ہے۔اس طرح کے ماحول پر جب حالات کا سایہ پڑجائے تو شعرا اس کی بھی ترجمانی کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں۔درج ذیل شعر ہماری سرگرم سماجی زندگی کے استعارے کے طوریا دکیا جائے گااور یہی اس کا حسن ہے۔
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
عید الفطر رنگا رنگ اور تنوع سے عبارت ہے،جو مذہبی عقیدے کے ساتھ ساتھ ثقافتی ورثے کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ آپ کے لیے عید کی خوشیاں مبارک ہوں!
سرنامہ کا شعر اردو کے مشہور شاعر سہیل آزاد کا ہے۔
وہی ہے عید وہی عید گاہ کے میلے
کسی کو ڈ ھونڈتا پھرتا ہوں خود کو کھوتے ہوئے
اجتماعیت کی نمائندگی کررہا ہے۔یہاں کھونے کا پہلو بھی خوب ہے۔عید کی یہی اجتماعیت اس کے قبول عام کی دلیل بھی ہے۔