ڈاکٹرعفت فریدی: غربت کےاندھیرے کو تعلیم کی روشنی سےدور کرنے کی'کوشش' ۔

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-09-2021
غریب بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش
غریب بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش

 

 

شائستہ فاطمہ/نئی دہلی

تعلیم وہ روشنی ہے جو کسی بھی انسان کو اس کی زندگی کی راہ پر بھٹکنے نہیں دیتی ہے،اسے کامیابی اور بلندی کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ یہی تعلیم نہ صرف کسی ایک کی زندگی کو بدل دیتی ہے بلکہ ملک کی ترقی اورتعمیرمیں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر کسی کو تعلیم آسانی سے نہیں مل پاتی ہے۔ کچھ تو وسائل ہوئے بھی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ہیں لیکن کچھ ایسے ہوتے جووسائل سے محرومی کے باوجود تعلیم حاصل کر لیتے ہیں،ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی انھیں سہارا دے اورانہیں حوصلہ دے۔ایسی ہی ایک کوشش کررہی ہیں ڈاکٹر عفت فریدی ۔

امروہہ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹرعفت فریدی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کی ۔جامعہ ملیہ سے ڈاکٹریٹ کی ،دو دہائی تک دہلی میں مقیم رہنے کے بعد اب بنگلور میں ہیں۔ جہاں انہوں نے غریب اور پسماندہ بچوں کی زندگی سے تاریکی دور کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ایسے بچے جن کے والدین مزدوری کررہے ہیں جن کے لیے دو وقت کی روٹی ایک مسئلہ ہے ،ایسے گھروں کے بچوں کو منظم طور پر تعلیم دلا کر بلکہ پرورش کرکے ایک روشن مستقبل کی ضامن بن رہی ہیں ۔

awazurdu

وہ بچے جن کے لیے اسکول ایک خواب تھا اب تعلیم کے میدان میں لمبی دوڑ کے گھوڑے بن رہے ہیں 

شوق تھا جو جنون بن گیا 

ڈاکٹرعفت فریدی کہتی ہیں کہ امروہہ(اترپردیش) کے زمانہ قیام میں، میں اپنے پڑوس کے بچوں کو شوقیہ طور پرمفت پڑھایا کرتی تھی۔ مجھے پڑھانے میں بہت مزہ آتا تھا ۔

بے شک اس وقت انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوگا کہ بچپن کا یہ شوق زندگی کے ایک موڑ پرکل وقتی جذبے میں بدل کر بنگلور کے بہت سے بچوں کی زندگیوں کو بدل دے گا۔

ڈاکٹر عفت فریدی نے 22 سال تک دہلی میں زندگی بسرکی۔اس دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونیورسٹی ، اے ایم یو اور ایس سی ای آر ٹی کے ساتھ لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا اور کئی این جی اوز کے ساتھ بھی وابستہ رہیں، لوگوں کی خاص طور پر بچوں کی مدد کی۔

 وہ کہتی ہیں کہ کسی کی زندگی میں تھوڑی تبدیلی لانا میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔یہ تبدیلی ہی کسی کی زندگی اور اس کے مستقبل کو بدل سکتی ہے۔ 

دس سال قبل ڈاکٹرعفت فریدی اپنے شوہر کے ساتھ بنگلور منتقل ہو گئ تھیں۔

کیسے شروع ہوا مشن 

 وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کی مدد کرنا اور کسی کی زندگی میں تبدیلی لانا میرے لیے بہت اہم ہے۔میری کوشش رہتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے تعلیم کے معاملہ میں کسی نہ کسی کی مدد کردوں۔

ڈاکٹر عفت کہتی ہیں کہ ’باغوں کے شہر‘ بنگلور میں جب ایک دن وہ جمنازیم  سے واپس آرہی تھیں تو کچھ بچوں کو دیکھا جو سڑک کے کنارے پڑے لکڑی کے ٹوٹے پھوٹے سامان میں کھیل رہے تھے۔ان کے چہروں پر تو مسکراہٹ تھی لیکن ان کی آنکھوں میں اُداسی چھائی ہوئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ چند دنوں کے دوران میں نے ان کے والدین کو تلاش کر لیا جو کہ پیشے سے مزدور تھے،انھیں بچوں کی تعلیم کے لیے راضی کیا،کیونکہ یہ بچے اکثر پارکوں اور عوامی مقامات پر ادھر ادھر گھومتے نظر آتے تھے۔ اس میں سے کئی کیا بیشتر والدین بچوں کی تعلیم کے لیے راضی ہوگئے ۔جس کے ساتھ بنگلور میں ان کا یہ مشن شروع ہوا۔ یہ سن2014 کی بات ہے۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عفت فریدی کہتی ہیں کہ میں نے ان بچوں سے پوچھا کہ کیا وہ پڑھائی کر نا پسند کریں گے؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ہر بچہ تیار ہوگیا۔وہ بتاتی ہیں یہ تمام بچے اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں لڑائی جھگڑوں میں ملوث رہتے تھے اور گھومنے پھرنے میں اپنا وقت برباد کرتے تھے۔ان بچوں سے بات کرکے انہیں خوشی ہوئی کیوں کہ انھوں نے تعلیم کے تئیں دلچسپی دکھائی تھی اور اسکول جانے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

awazurdu

ایک مزدور کی بچی اب بنگلور کی ایک سوسائٹی میں بچے کو کنٹرزبان کا ٹیوشن دیتی ہے 

خوشی اور سکون 

ڈاکٹرعفت فریدی مزید کہتی ہیں کہ میرا کام میرا جنون ہے، میں نے اپنے معاشرہ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے، اس معاشرے کو کچھ واپس دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئی، اس لیے اب میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں بھی اپنے معاشرے کے لیے کچھ کروں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ڈاکٹرعفت فریدی کا پہلا بیچ 22 بچوں پر مشتمل تھا، جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں  تھے۔انھوں نے آواز دی وائس کو بتایا کہ میں نے انہیں اسکول میں داخل کرایا اور ایک کنڑ ٹیچر بھی مقرر کیا۔ ان بچوں میں سے کچھ کی عمریں 14 سال سے تجاوز کر چکی تھیں۔ انہیں میں نے دسویں جماعت کے امتحانات دلوائے۔

awaz

بچوں کو پارک اور دیگر مقامات کی سیر کراکے ان میں اعتماد پیدا کیا 

 ڈاکٹر عفت فریدی کہتی ہیں کہ جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والے یہ بچے مالی طور مستحکم خاندانوں کے بچوں کی طرح ذہین ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ انہوں نے فخر کے ساتھ کہا کہ میری ایک طالبہ مونیکا آئی اے ایس افسر بننا چاہتی ہے جب کہ بقیہ بچے اپنے اپنےبہتر مستقبل کے تئیں کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ میرے انڈر گریجویٹ طلباء بی اے کے بعد بی ایڈ کریں اور نوکری حاصل کریں۔ اس طرح وہ اپنے اہل خانہ کی مدد کر سکیں گے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ تعلیم سے وابستہ رہیں ڈاکٹرعفت فریدی کہتی ہیں جب میں پیچھے مڑ کردیکھتی ہوں تو مجھے 50 کے قریب بچے نظر آتے ہیں جو پڑھنا لکھنا جان چکے ہیں اور ان میں سے کچھ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے عزائم بلند ہیں جو تعلیم کے بعد اپنی زندگی میں تبدیلی کو محسوس کررہے ہیں ۔

awaz

یہ بچے ملک کا مستقبل ہیں ۔ بس ایک سہارے کی ضرورت ہوتی ہے  

خیال رہے کہ ڈاکٹر عفت فریدی کی سب سے بڑی طالبہ مونیکا فی الوقت بی اے کر رہی ہے اور دیگر بچوں کو پڑھائی میں مدد بھی کرتی ہے۔وہ دوسرے بچوں کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ ٹیکنیکل اور پروفیشنل کورس کریں تاکہ وہ باعزت ملازمت حاصل کر سکیں اور اپنی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں۔

 عفت بتاتی ہیں کہ میری طالبات بہت زیادہ شریف اورمحنتی ہیں، حالانکہ طلبا کو سنبھالنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے، وہ شرارت کرتے ہیں۔جب بچوں سے ان کے جذباتی تعلق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ تمام بچے اپنی زندگی میں بہترین کام کریں، تاہم میں جذباتی طور پر ان کے ساتھ منسلک نہیں ہوں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ جذبات کبھی کبھی کمزور ہو جاتے ہیں کیوںکہ وہ آپ کو خود غرض بنا دیتے ہیں۔

انھوں نے آواز دی وائس کو بہت ہی جذباتی انداز میں کہا کہ میرا دل ان بچوں کو کمزور چھتوں کے نیچے دیکھ کر روتا ہے، تاہم میں اسے تبدیل نہیں کر سکتی۔ اسی لیے میں ان کو بااختیار بنانا چاہتی ہوں۔

ڈاکٹر عفت کا مقصد انسانیت کی بے لوث خدمت کرنا ہے۔ وہ اپنے اردگرد پسماندہ طبقے کا خیال رکھنا اپنا فرض سمجھتی ہیں، ان طبقوں کے درمیان تعلیم کی شمع روشن کرنا انھوں نے اپنی زندگی کا اولین مقصد بنا لیا ہے۔اس کے ذریعہ سے وہ ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہیں۔

awazurdu

کرناٹک ٹیچرز پرائڈ ایوارڈ ک