ہندوؤں کو کافر نہ کہیں: مولانامحمود مدنی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 01-06-2022
ہندوؤں کو کافر نہ کہیں: مولانامحمود مدنی
ہندوؤں کو کافر نہ کہیں: مولانامحمود مدنی

 

 

آواز دی وائس / نئی دہلی

جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی ہندوؤں کو کافر کہنے کے خلاف ہیں۔اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک اصطلاح ہے۔ یہ بات تو بہت پہلے طے ہوچکی ہے کہ اگر کسی کو کافر کہنے سے تکلیف پہنچے تو اسے کافر نہ کہا جائے۔ایسے میں کسی غیر مسلم کو کافر کہنا غلط ہے۔

مولانا مدنی نے ایک نجی چینل کے پروگرام میں مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت میں جس طرح کی خارجہ پالیسی دکھائی گئی اس کی تعریف کی جانی چاہئے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان کی ایک نئی شبیہ عرصہ دراز کے بعد دنیا کے سامنے آئی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے قول کہ ملک کو جھکنے نہیں دوں گا، عملی طور پر کرکے دکھا دیا ہے۔ مدنی نے ٹی وی پروگرام میں دیگر مسائل پر بھی اپنی رائے دی۔

اس دوران مدنی سے پوچھا گیا کہ ہندوؤں کو کافر کیوں کہا جاتا ہے؟ ہندو کافر ہیں یا نہیں؟ اس پرمولانامحمود مدنی نے نے کہا کہ ہندوؤں کو کافر کہنا غلط ہے۔

اذان اور لاؤڈ اسپیکر کے مسئلہ پر سوال کے جواب میں مدنی نے کہا کہ لاؤڈ اسپیکر کو اذان سے ہٹانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دھیمی آواز میں لاؤڈ اسپیکر لگانا درست ہے۔ٹی وی پروگرام میں یوگی کی تعریف کرتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے کہا کہ اتر پردیش کی یوگی حکومت نے تمام طبقوں پر ایک جیسے اصول نافذ کیے ہیں۔

حجاب پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں مدنی نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ مسلمان لڑکیوں کو حجاب کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے نہ روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ 20 سال تک بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں۔ اس کے علاوہ ہندی کے بارے میں مدنی نے کہا کہ اردو ہماری مادری زبان ہے، لیکن ہندی کی ترقی اور بہتری پر کام ہونا چاہیے۔

تاہم، مدنی نے گیانواپی کے معاملے پر کہا کہ اس موضوع پر کسی بھی عوامی پلیٹ فارم پر بات نہیں کی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں مدنی نے کہا کہ ماضی میں مسلمانوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے، اگرچہ کچھ مسائل ہیں، لیکن تبدیلی سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘۔ بلڈوزر کی کارروائی پر مدنی نے مدھیہ پردیش کے کھرگون کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے جانبدارانہ کارروائی ہوئی ہے۔ حکومت کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں، بہتری نہ آئی تو عدالت جائیں گے۔

مدرسے کو سرکاری رقم ملنے پر مولانا مدنی نے کہا کہ حکومت مدرسے کو پیسے دینا بند کرنا چاہئے۔ مدارس کو سرکاری پیسے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر حکومت کسی بھی کمیونٹی کی ترقی، مدد کرنا چاہتی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اسکول بنائے۔ اگر کوئی کمیونٹی اپنا مدرسہ یا گروکل چلانا چاہتی ہے تو اسے اپنے پیسے سے چلایا جانا چاہیے۔