دیوبرتا گھوش:ایک صوفی بزرگ کے مزار کا خاد م

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-11-2021
دیوبرتا گھوش:ہندو۔مسلم اتحاد کی علامت
دیوبرتا گھوش:ہندو۔مسلم اتحاد کی علامت

 

 

 عارف الاسلام/گوہاٹی

 ہندوستان رنگا رنگ تہذیب وتمدن کی سرزمین ہے، اسی لیے یہاں تنوع میں اتحاد پایا جاتا ہے۔وہیں اس میں کوئی شک نہیں ریاست آسام ہندو مسلم اتحاد، یگانگت اور ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔ملک کے اس شمال مشرقی ریاست میں مختلف رنگ و نسل اور مذاہب کے 3.5 کروڑ لوگ آباد ہیں۔ جس طرح یہاں مندروں  میں پوجا کی جاتی ہے، اسی طرح یہاں درگاہوں پر بھی بڑی تعداد میں لوگ جاتے ہیں اور اپنی مرادیں مانگتے ہیں۔اس کے علاوہ زیارت گاہوں کی دیکھ بھال کرنا بھی عام ہے۔

ایسے ہی بھائی چارہ اور اتحاد کی مثال آسام کے دارالحکومت گوہاٹی کے لال گنیش علاقے کے دیوبرتا گھوش کی ہے، جو کئی سالوں سے گوہاٹی میں ایک مسلمان صوفی بزرگ کی درگاہ کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

 گھوش پلٹن بازار میں گوہاٹی ریلوے اسٹیشن کے قریب ریلوے کھجور بگن کالونی میں 'پیر بابا مظہر' کے نام سے مشہور مزار کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ جب کہ ان کی رہائش گاہ وہاں سے 6 کلو میٹر دور لال گنیش میں ہے۔ گھوش ہر روز مزار کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے وہاں جاتے ہیں، جھاڑو دیتے ہیں،اگربتی جلاتے ہیں۔یہ ایک ایسا عمل ہے جسے انہوں نے اپنی دادی سے وراثت میں پایا ہے۔

آواز دی وائس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں گھوش نے کہا کہ سابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے بہت سے لوگ 1931 سے پہلے گوہاٹی آئے تھے۔ وہ لوگ ریلوے  میں مزدوری کرنے کے لیےاپنے وطن سے ہجرت کر کےآئےتھے۔

 تمام مہاجر مزدوروں کو ریلوے حکام نے پیر بابا کے مزار کے قریب بسایا تھا۔ میری دادی بھی ان مہاجرمزدوروں میں سے ایک تھیں۔ پلٹن بازار اسٹیشن پر اس وقت صرف کھجور کا ایک درخت تھا۔ اس وقت مزار بھی صرف مٹی کا بنا ہوا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میری دادی کے مطابق بارش کے دوران بارش کی بوندیں کبھی بھی مزار کو نہیں بھگوتی تھیں۔ ایک بار رات کے 2 بجے کے قریب میری دادی نے مزار کے قریب درخت پر ایک مٹی کا چراغ جلتا ہوا دیکھا۔ پھر میری دادی کو خواب میں بتایا گیا کہ جو لوگ وہاں آباد ہیں انہیں مزار کی دیکھ بھال کرنی ہوگی ورنہ وہ وہاں رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

تین دنوں بعد مزار کے قریب بستی میں آگ لگ گئی لیکن ساتھ کھڑے کھجور کے درخت کے ایک پتے کو بھی نقصان نہیں پہنچا۔آتشزدگی کے بعد میری دادی اور اہلِ محلہ کے کچھ دوسرے لوگوں نے ریلوے ورکشاپ کے حکام سے اجازت لے کر پیر بابا کی قبر کو پختہ کروا دیا، تاکہ اسے درگاہ کی شکل دی جا سکے۔اس کے بعد جوہر نامی ایک مسلمان شخص نے پہلی بار مزار پر حاضری دی اور میری دادی سے کہا کہ وہ ہر روز اسی طرح کی رسومات ادا کیا کریں۔

میری دادی نےاس وقت سے ہی مزار کی دیکھ بھال شروع کردی تھی اور اب میں ان کی میراث کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔یہاں کے مقامی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر اس مزار پر دعا کی جائے تو تمام منتیں پوری ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گوہاٹی سمیت ریاست کے مختلف حصوں سے مختلف مذاہب کے لوگ ان دنوں پیر بابا کے مزار پر آتے ہیں۔

گھوش کہتے ہیں کہ مذہبی عقائد سے قطع نظر ہم طویل عرصے سے مزار میں عقیدت رکتھے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم مزار کی معجزانہ طاقت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی مزار پر اخلاص کے ساتھ دعا کرتا ہے تو اس کی دعا رد نہیں کی جاتی بلکہ ضرور قبول ہوتی ہے۔

راکیش داس نامی مقامی شخص نے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے دیوبرتا گھوش کو انتہائی خلوص کے ساتھ مزار کی دیکھ بھال کرتے ہوئے دیکھ ر ہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً مزار کی دیکھ بھال کے لیے وہ بھی آتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔

یہ وہ مزار ہے جہاں مسلمان اسلامی طریقے سے عبادت کرتے ہیں اور ہندو پوجا ارچنا کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ شیتل پوجا کے موقع پر ہرسال ساکا کیلنڈر(Saka calendar ) کے مہینے چیت (Chaitra) میں بابا کے مزار پر پوجا کی جاتی ہے اور مزار سے وابستہ تمام لوگ پوجا میں شامل ہوتے ہیں۔