منصور الدین فریدی : نئی دہلی / آگرہ
مانا کہ مقدر کا لکھا اپنی جگہ ہے
پھر بھی تو فقیروں کی دعا اپنی جگہ ہے
میں ہر روز اسی پیڑ کے سائے میں مِلوں گا
لیکن وہ میرا اصلی پتہ اپنی جگہ ہے
ان اشعار کے ساتھ پیر زادہ ارشد فریدی نے صحافی اور سجادہ نشین کے کردار کو اپنے انداز میں بیان کیا جنہیں پچھلے دنوں درگاہ شیخ سلیم چشتی ؒ کا 17ویں سجادہ نشین کا منصب سونپا گیا۔ جس پر 1945سے ابتک ان کے والد پیر زادہ رئیس میاں فائز تھے جنہوں نے اس سجادہ نشینی کو صرف سات سال کی عمر میں سنبھالا تھا ۔ دراصل اس دستار بندی کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ پیر زادہ ارشد فریدی ایک معروف صحافی ہیں ۔ ہندی اور اردو صحافت میں ان کی پہچان ہے۔ مگر خاندانی ذمہ داری کے سبب اب انہیں اس منصب کو سنبھالنا پڑا ۔
صحافت سے سجادہ نشینی تک کے سفر کے بارے میں ارشد فریدی کا کہنا ہے کہ صحافت میرا شوق ہے اور سجادہ نشینی میری خاندانی ذمہ داری یا وراثت ہے ، جسے میرے والد نے مجھے سونپا ہے، میں یہی کوشش کروں گا کہ ملک میں امن ۔وامان کے لیے کام کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ یہی مجھے وراثت میں ملا ہے اور یہی خانقاہوں کی تعلیم ہے ۔محبت کا پیغام ۔ جسے میں دنیا کو دینے کی کوشش کروں گا۔
آپ کو بتا دیں کہ یہ محفل دستار بندی کی رسم،روحانی قیادت کی منتقلی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یاد رہے حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ سے ہی شہنشاہ اکبر نے اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی تھی، جس کے بعد مغل خاندان کو ایک شہزادہ ملا تھا ۔جس کا نام اکبر نے بزرگ شیخ سلیم چششتی سے عقیدت کے اظہار کے لیے سلیم رکھا تھا ۔
ارشد فریدی نے اپنے والد رئیس میاں کی جگہ سجادہ نشین کی ذمہ داری سنبھالی
صحافت سے سجادہ نشینی تک
پیر زادہ ارشد فریدی نے کہا کہ جہاں تک منصبِ سجاد نشین کا تعلق ہے، یہ ہمارے خاندان کی ایک دینی و روحانی ذمہ داری ہے۔ والدِ محترم کی حیات میں ان کی ہدایت کے مطابق میں دیگر ذمہ داریوں میں مشغول رہا۔ لیکن جب والد صاحب کا حکم آیا، تو میں نے سجادگی کا فریضہ خوش دلی سے قبول کیا۔ یہ منصب میرے لیے محض ایک عزت کا باعث نہیں بلکہ ایک عظیم فرض بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خاندان کو جو روحانی وراثت نصیب ہوئی ہے، وہی ہماری اصل متاع ہے۔ دنیاوی مصروفیات اپنی جگہ، مگر میری پہلی ترجیح ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلوں اور ان کی تعلیمات کا حق ادا کروں۔میری کوشش ہے کہ نہ صرف منصبِ سجادگی کی روایات کو نبھاؤں بلکہ ملک اور سماج کی خدمت بھی کرتا رہوں۔ انشاءاللہ، ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اپنے کردار اور عمل سے انسانیت کی بھلائی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
ارشد فریدی ایک صحافی سے سجاد نشین کا دلچسپ سفر
ارشد فریدی اب صحافت کے ساتھ ایک صوفی رہنما کے کردار میں امن و امان کو فروغ دینے کے لیے پر عزم ہیں
ارشد فریدی نے آواز دی وائس سے کہا کہ میرا صحافت میں آنا ایک طرح سے اتفاق بھی تھا اور ایک دیرینہ شوق بھی۔ میں نے آگرہ کالج سے ایم ایس سی (اسٹیٹسٹکس) میں فرسٹ ڈویژن سے تعلیم مکمل کی تھی۔ میرے والدِ محترم کی خواہش تھی کہ میں آگے بڑھ کر پی ایچ ڈی کروں، لیکن میرا دل چاہتا تھا کہ جلد از جلد صحافت کے میدان میں قدم رکھوں۔ اسی جذبے کے تحت میں دہلی آ گیا۔ایک نئے میدان میں قسمت آزمانے کا جوش تھا ۔انہوں نے کہا کہ ملک کی راجدھانی میں سب سے پہلے میں نے ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ ہندی سے اپنے صحافتی سفر کی شروعات کی۔ اس کے بعد مجھے ’ امر اجالا‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ پھر طویل عرصے تک میں نے ’دینک جاگرن ‘ میں اپنی خدمات انجام دیں۔ ۔ الحمدللہ، آج میں ’روزنامہ میرا وطن‘ (اردو اخبار) کا ایڈیٹر ہوں اور ساتھ ہی ایک ہندی اخبار ’میٹرو میڈیا‘ بھی نکالتا ہوں۔
ارشد فریدی کی دستار بندی کی تقریب کا منظر
دستار بندی کے دوران بزرگ صوفی رئیس میاں کے ساتھ ان کے جانشین بنے پیر زادہ ارشد فریدی اور دیگر مہمان
درگاہ حضرت سلیم چشتی میں دستار بندی کی محفل میں ملک کی مختلف درگاہوں کے سر براہوں کے ساتھ ممتاز رہنماووں اور دانشوروں نے شر کت کی۔ اجمیر شریف درگاہ کے سربراہ نصیرالدین چشتی، نظام الدین اولیاء کے سجادہ نشین فرید نظامی، درگاہ رودوالی کے نیئر میاں ۔ کلیر شریف درگاہ کے سجادہ نشین علی شاہ میاں ،رامپور کے ایس پی ایم پی مولانا محب اللہ ندوی کے ساتھ انڈین فارن سروس کے سابق افسر اور اردن میں ہندوستانی سفیر انور حلیم نے پیر زادہ ارشد فریدی کو مبارکباد دی۔
کون تھے حضرت سلیم چشتی
شیخ سلیم چشتی سولہویں صدی میں ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے عظیم و جلیل القدر بزرگ تھے ۔ مغل دور میں شہنشاہ اکبر اور جہانگیر کو اُن سے عقیدت تھی۔ شہنشاہ اکبر نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی اولاد اور سلسلہ امیر تیمور کے جانشینوں کی زِندگی کے لیے دعا کرائی تھی ۔ اِسی لیے مغل بادشاہوں کو اِن سے بہت عقیدت تھی۔صوفی بزرگ شیخ سلیم چشتی نے 93 یا 94 سال کی عمر میں اپریل 1572 میں فتح پور سیکری میں وفات پائی۔ ہنشاہ اکبر کے حکم پر اُن کی تدفین بلند دروازہ کے سامنے کی گئی تھی ۔جس پر بعد ازاں 1580 میں شہنشاہ اکبر کے حکم پر ایک خوبصورت مقبرہ تعمیر کیا گیا جسے مقبرہ شیخ سلیم چشتی بھی کہا جاتا ہے۔