امیرخسروکی شاعری میں بسنت کے رنگ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 25-01-2023
امیرخسروکی شاعری میں بسنت کے رنگ
امیرخسروکی شاعری میں بسنت کے رنگ

 

 

شریف احمد قریشی

موسمِ سرما میں شدید سردی کے باعث نباتات پژمُردہ اور حیوانات کی طبیعتیں منقبض ہو جاتی ہیں۔ بسنت رُت یعنی موسمِ بہار میں سیلانِ خون کے سبب طبیعتوں کا شگفتگی، جوش اور اُمنگ سے بھر جانا عین فطرت ہے۔ اس موسم میں آفتاب سمتِ دکن سے طرب انگیز سامان کے ساتھ پلٹتا ہے اور نباتات و حیوانات میں تازہ زندگی کی روح پھونک دیتا ہے۔ پیڑ پودوں کی شاخوں پر سبز کونپلیں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ چڑیوں کے مسحور کُن نغمے اور نیچر کا بہار راگ غم ناک و نم ناک فضاؤں کو خوش گوار بنا دیتا ہے۔

بسنت رُت یعنی موسمِ بہار کا استقبال کرنے کے لیے ماگھ کے مہینے کی پانچویں تاریخ کو نہایت دھوم دھام سے جشن کا آغاز کیا جاتا ہے جسے بسنت پنچمی کہتے ہیں۔ یہ جشن کہیں ایک ہفتے اور کہیں پندرہ دنوں تک مسلسل چلتا رہتا ہے۔ مخصوص مندروں اور بعض مقامات پر بسنت کے میلوں کا انعقاد نہایت دھوم دھام سے کیا جاتا ہے۔ اس دن وشنو اور کام دیو یعنی موکلِ عشق کی پرستش کی جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسی دن علم کی دیوی سرسوتی کا اس عالمِ رنگِ بو میں ظہور ہوا تھا۔ اس لیے اس دن کو سرسوتی دیوی کے یومِ پیدائش کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

امیر خسرو سے پہلے مسلمانوں میں بسنت اور بسنت کے میلوں کے انعقاد کا دستور نہ تھا۔ خسرو وہ پہلے مسلم ہیں جنہوں نے دہلی میں تیرہویں صدی عیسوی میں بسنت کے جشن کی شروعات کی۔ اس کے بعد صوفیاے کرام بالخصوص خاندانِ چشتیہ سے وابستہ بزرگانِ دین کی مزاروں ، درگاہوں اور خانقاہوں میں بسنت کے جشن اور میلے نہایت دھوم دھام سے منعقد کیے جانے لگے جس کا سبب یہ ہے کہ امیر خسرو کے پیر ومرشد حضرتِ نظام الدّین اولیاء اپنے بھانجے تقی الدّین نوح کو اس قدر چاہتے تھے کہ ذرا دیر کی مفارقت بھی انہیں ناقابلِ برداشت ہوتی تھی۔

تقی الدّین نوح کو بھی اپنے ماموں حضرتِ نظام الدّین اولیاء سے بے حد اُنس تھا۔ وہ ہر نماز کے بعد دُعا مانگتے تھے کہ اُن کی عمر اُن کے ماموں کو لگ جائے تاکہ اُن کے روحانی فیض کا چشمہ عرصۂ دراز تک جاری رہِے مگر مشیتِ ایزدی کہ ایک روز اچانک وہ اُٹھتی جوانی ہی میں اس جہانِ فانی سے اُٹھ گئے۔ نظام الدّین اولیاء کو اپنے بھانجے کے انتقال کا اس قدر رنج وملال ہوا کہ وہ گُم صُم رہنے لگے۔ تقریباً چھ ماہ کا عرصہ اسی کیفیت میں گزر گیا۔ امیر خسرو اپنے مُرشد کی اس حالت سے نہایت فکر مند تھے اور ہر لمحہ کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح اُن کا غم غلط ہو۔

ایک روز حضرتِ نظام الدّین اولیاء اپنے مریدوں اور مصاحبین کے ساتھ تالاب کی سیر کو نکلے۔ کسی وجہ سے امیر خسرو پیچھے رہ گئے۔ راستے میں اُن کی نظر ایک جمِّ غفیر پر پڑی۔ بسنت پنچمی کا دن تھا۔ کالکا جی کے مندر کے احاطہ میں بسنت کا میلہ لگا ہوا تھا۔ بیشتر شرکاء زرد لباس زیبِ تن کیے ہوئے موج مستی اور عقیدت کے عالم میں گا بجا رہِے تھے۔ وہ دیوی کو خوش کرنے اور اُس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے سرسوں کے پھولوں کے ہار، گجرے اور پھولوں سے سجی ہوئی گاگریں نذر کر رہِے تھے۔

امیر خسرو کو اُسی وقت خیال آیا کہ وہ بھی اپنے مغموم و رنجور مُرشد کو اسی طرح خوش کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے اُسی وقت فارسی اور ہندی زبان میں کچھ اشعار موزوں کیے۔ اس کے بعد اپنی دستار کو کھول کر کُچھ پیچ ادھر اُدھر لٹکائے، اُن میں سرسوں کے پھولوں کے گُچھّوں کو اُلجھا کر جھومنے لگے اور یہ مصرع کہ ’’اشک ریز آمدہ است بہار‘‘ کو لحنِ خاص میں بار بار پڑھتے ہوئے تالاب کی سمت روانہ ہوئے۔

حضرتِ نظام الدّین اولیاء اُس وقت اپنے بھانجے کی مزار پر تھے اُنھوں نے دور سے ملاحظہ کیا کہ آج امیر خسرو عجیب رنگ میں ہیں۔ مستانہ چال اور معشوقانہ انداز میں خراماں خراماں نیم بے خودی کی حالت میں اُن کی طرف بڑھ رہِے ہیں تو وہ بھی اپنے آپ کو نہ روک سکے اور اپنے رنج وغم کو بھُلا کر جیسے ہی خسرو کی جانب بڑھے تو خسرو نے آبدیدہ ہو کر اُن کی طرف دیکھتے ہوئے بے تابانہ انداز میں یہ شعر پڑھا ؂

اشک ریز آمدہ است بہار

ساقیا گُل بریز بادہ بیار

دوسرے مصرع کے سُنتے ہی حضرتِ نظام الدّین اولیاء بے قرار و بے تاب ہو گئے اور ایسے مدہوش ہوئے کہ اُسی رنگ میں رنگ گئے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ بیشتر صوفیاے کرام کی مزاروں ، درگاہوں اور خانقاہوں میں بسنت کی گاگریں چڑھنے لگیں اور میلے لگنے لگے۔ لوگ ہاتھوں میں کنول کے پھول اور گڑوے لیے ہوئے تقی الدّین نوح کی مزار پر جاتے ہیں اور قوّال ٹھمریوں کو پڑھ پڑھ کر خسرو کے مصرع ’’عرب پار توری بسنت منائی‘‘ کو بار بار والہانہ انداز میں پڑھتے ہیں۔

امیر خسرو نے مسلمانوں میں بسنت کو رواج ہی نہیں دیا بلکہ بسنت کے تعلّق سے کئی قابلِ قدر اور ناقابلِ فراموش گیت بھی لکھے جو عوام وخواص میں حددرجہ مقبول ہوئے۔ اُن کے گیت بسنت کی تقریبات میں نہایت ذوق وشوق سے پڑھے جاتے ہیں۔

دیکھیے وہ بسنت کے موقع پر کس انداز سے اپنے پیر ومرشد حضرتِ نظامِ الدّین اولیاء سے گویا ہوتے ہیں ؂

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

توٗ تو صاحب مرا محبوبِ الٰہی

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

ہمری چنریا، پیا کی پگڑیا

وہ تو دونوں بسنتی رنگ دے

توٗ تو صاحب مرا محبوبِ الہٰی

جو کچھ مانگے رنگ کی رنگائی

مورا جوبن گرویں رکھ لے

توٗ تو صاحب مرا محبوبِ الہٰی

آن پڑی دربار تہارے

موری لاج شرم سب رکھ لے

توٗ تو صاحب مرا محبوبِ الہٰی

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

حضرتِ نظام الدّین اولیاء سے روحانی فیض حاصل کرنے والوں میں امیر خسرو کو اوّلیت و افضلیت حاصل ہے۔ پیر ومرشد کی تربیت ہی کی وجہ سے وہ کئی سال تک صائم الدہر رہِے اور عشقِ الٰہی کی سوزش میں تپتے رہِے۔ صوفیانہ اندازِ نظر میں انسان دوستی اور باہمی رفاقت کی اہمیت مسلّمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خسرو کے تخلیقی مزاج میں انسانیت اور ہندوستانیت پائی جاتی ہے۔ اُن کی صوفیانہ فکر بے جا تکلّفات سے مبرّا ہے۔ وہ روا داری اور وسیع النظری کا پیکر تھے۔ انسانیت اُن کا مذہب تھا۔ وہ طبقاتی امتیازات اور عقائد کے بندھنوں سے آزاد باہمی یگانگت اور صلح کُل کے علم بردار صوفی منش شاعر تھے۔

اُنہوں نے ہندوستانی رسم ورواج اور بالخصوص ہندوؤں کے تیوہار بسنت سے متعلّق نہایت خلوص ، یگانگت اور جوش وولولے کے ساتھ اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔ اُنہوں نے عوام کی بول چال اور گفتگو کو اشعار کے پیکر میں ڈھال کر عوامی زبان کو فروغ دیا۔ پریم مارگی سنت اور صوفی اپنے گرو ، مرشد یا مالکِ حقیقی کو پیا اور خود کو اُس کی بہُریا یا دیوانی تصوّر کرتے ہیں۔ بسنت سے متعلّق خسرو کے بیشتر گیت اسی نظریے کے عکّاس و آئینہ دار ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ؂

آج بسنت منالے سُہاگن ، آج بسنت منالے

انجن منجن کر پیا موری، لمبے نیہر لگائے

توٗ کیا سووے نیند کی ماتی ، سو جاگے تیرے بھاگ سُہاگن

آج بسنت منالے سُہاگن ، آج بسنت منالے

اونچی نار کے اونچے چتون، اَیسو دییو ہے بسائے

شاہِ امیر توہِے دیکھن کو ، نینوں سے نینا ملائے

آج بسنت منالے سُہاگن ،سہاگن آج بسنت منالے

امیر خسرو کی شاعری میں بسنت رُت کی جو سرشاری و بے خودی نظر آتی ہے وہ موسمِ بہار سے متعلّق فارسی شاعری میں دوٗر دوٗر تک نظر نہیں آتی۔ یہاں کی بسنت رُت ایسی فصلِ بہار ہے جسے سرتاجِ موسم کا درجہ حاصل ہے۔ کھیتوں میں سرسوں پھوٗلنے، آموں کے درختوں پر بَور آنے کے مناظر اور کوےَل کی نغمہ سنجی سے سُننے والوں کے نہ صرف دل بے کل ہوجاتے ہیں بلکہ وہ بَورا سے جاتے ہیں۔ گوریاں سنگار کرتی ہیں اور سجے ہوئے گڑوؤں کو لے کر مندروں میں جاتی ہیں۔ اس منظر کو امیر خسرو اپنے پےٖر و مُرشد کو مخاطب کرتے ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں ؂

سکل بن پھوٗل رہی سرسوں، امبوا بَورائے ، ٹیسو پھولے

کوئل بولے ڈار ڈار اور گوری کرت سنگار

ملنیا گڑھوا لے آئیں کرسوں،سکل بن پھوٗل رہی سرسوں

طرح طرح کے پھول کھلائے ، لے گڑھوا ہاتھن میں آئے

نجامودّیں کے درواجے پے آون کہہ گئے عاشقِ زار

اور بےٖت گئے برسوں ، سکل بن پھوٗل رہی سرسوں

یہی نہیں وہ آئندہ آنے والی بسنت رُت میں چادر کی علامت سے خود کو پوری طرح رنگ دینے کا اظہار اپنے پےٖر و مُرشد سے اس طرح کرتے ہیں ؂

توری صورت کے بلہاری ، رکھ لے لاج ہماری

سب سکھین میں چدّر میری میلی ،دیکھ ہنسیں نر ناری

اب کے بہار چدّر میری رنگ دے ، رکھ لے لاج ہماری

صدقہ بابا گنج شکر کا، رکھ لے لاج ہماری

قطب فرید مل آئے براتی ،خسرو راج دلاری ، رکھ لے لاج ہماری

کوؤ ساس کوؤ نند سے جھگڑے، ہم کو آس تمہاری ، رکھ لے لاج ہماری

بسنت کے تیوہار سے متعلّق امیر خسرو کا ایک اور گےٖت کی شمولیت ’جواہرِ خسروی ‘ میں ہے جس کا روئے سخن اگر چہ اُن کے پیر ومرشد حضرتِ نظام الدّین اولیاء کی طرف ہے مگر ہندوستانی کلچر، ہندوستانی تیوہاروں سے دلچسپی اور ہندوستان سے گہری وابستگی و محبت کا اظہاریہ ہے۔ تصوف کے رنگ میں ڈوبے ہوئے اس گیت کے چند بند بطورِ نمونہ پیش ہیں ؂

حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال

باءِس کھاجا مل ہن بن آیو تالے

حضرت رسول صاحب جمال

حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال

عرب یار تیرو بسنت بنایو

سدا رکھّے لال گُلال

حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال

مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ امیر خسرو نے بسنت سے متعلّق اپنی منظوم نگارشات کے ذریعے دو قوموں کی تہذیب ومعاشرت ، رواداری اور باہمی اتحاد کو فروغ دینے میں ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔