عرس خواجہ معین الدین چشتی کی تقریب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-02-2021
عرس خواجہ کی تقریب
عرس خواجہ کی تقریب

 

اجمیرشریف ،کا عرس،ہر سال انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ منایا جاتاہے،جس میں دنیا بھر کے زائرین شامل ہوتے ہیں۔ یہ موقع عقیدت مندوں کے لئے بے حد اہم ہوتاہے۔ خواجہ کے دیوانے ہرسرحدوسیما کو پار کرکے اجمیرشریف آتے ہیں۔ اس موقع پر اجمیرمیں لوگوں کی بھیڑنظرآتی ہے اور تل رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔یہاں ایک الگ قسم کا نظارہ دیکھنے کو ملتاہے اورشہر کاذرہ ذرہ رحمتوں میں ڈوبادکھائی پڑتاہے۔

ذکرخواجہ کی محفلیں سجتی ہیں۔علمائ کی تقریریں ہوتی ہیں۔قوالیاں ہوتی ہیں جن میں کئی لوگوں کو حال کی کیفیت میں دیکھاجاتاہے۔قلندروں کی ٹولیاں الگ کرتب دکھاتی نظر آتی ہیں۔عقیدت ،مند مزارمبارک پرچادریں اور پھول چڑھاتے ہیں۔

عرس کا اختتام بھی کچھ رسم ورواج کے ساتھ ہوتا ہے۔

اجمیرمیں خواجہ معین الدین چشتی کے مزارکو غسل دینے کی تقریب یادگار ہوتی ہے۔اس میں دیوان اور خدام شامل ہوتے ہیں۔ گلاب اور کیوڑے کے پانی سےمزار کو دھویا جاتاہے۔ یہ اظہارعقیدت کا بھی ایک ذریعہ ہے۔یہی وہ موقع ہوتا ہے جب مزار کو بغیر چادر کے دیکھاجاتا ہے، ورنہ عام دنوں میں تو مزارمبارک چادروں سے ڈھکاہوتاہے۔

محفل سماع کا سلسلہ صوفیوں کے آستانوں پر پرانے دور سے چلا آرہاہے۔ حمدونعت اور عشق وعرفان سے بھرپور غزلیں اور نظمیں سننا صوفیہ پسند کرتے تھے۔ہندوستان میں یہ سلسلہ خواجہ معین الدین چشتی نے شروع کیا اور ان کے سلسلے کے بزرگوں نے عام کیا۔ خواجہ صاحب کے سلسلے کے ایک اہم بزرگ شیخ االمشائخ نظام الدین اولیائ تو کچھ علمائ کی مخالفت کے باوجوداس پر کاربند رہے۔

بڑی دیگ : دروازے کے مغرب میں رکھی ہے، یہ شہنشاہ اکبر نے 1569میں پیش کی تھی ، اس میں تقریباً 37 کوئنٹل (100من) تبرک پکایا جاسکتا ہے۔

چھوٹی دیگ : بلند دروازہ کے مشرق میں رکھی ہے، یہ دیگ شہنشاہ جہانگیر نے آگرہ میں تیار کروائی تھی، 1033میں پیش کی تھی، اس میں تقریباً 29 کوئنٹل (80من) تبرک کی گنجائش ہے، سالوں سال سے یہ طریقہ عام ہے کہ اپنے وقت کے بڑے حکمرانوں ، امیروں ، عام آدمی اپنی عقیدت اور خاص جذبات کے ساتھ یہاں حاضری دیتے ہیں اور اپنی طاقت کے مطابق بڑی چھوٹی دیگ کے تبرک میں اپنا حصہ شامل کرتے ہیں۔