کیا عورت دورانِ حیض مسجد میں جا سکتی ہے؟

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 17-05-2023
کیا عورت دورانِ حیض مسجد میں جا سکتی ہے؟
کیا عورت دورانِ حیض مسجد میں جا سکتی ہے؟

 

ڈاکٹر رضی الااسلام ندوی 

ایک سوال پوچھا گیا کہ ------- کیا جاتا ہے کہ عورت جب حیض کی حالت میں ہو تو وہ نہ قرآن کی تلاوت کر سکتی ہے، نہ نماز پڑھ سکتی ہے، نہ روزے رکھ سکتی ہے؟ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا اس حالت میں عورت کسی دینی پروگرام میں شرکت کے لیے مسجد میں جا سکتی ہے؟ بعض مسجدیں کئی منزلہ ہوتی ہیں۔ نماز پڑھنے کے علاوہ انھیں دیگر کاموں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مسجدوں کے بیسمنٹ یا اوپری منزل میں کوئی دینی جلسہ ہو رہا ہو، یاکوئی تربیتی پروگرام یا ورک شاپ چلایا جا رہا ہو، یا کوچنگ کلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہو، کیا حالتِ حیض میں عورت کے لیے اس میں شرکت جائز ہے؟

جواب:   بعض سماجوں میں خواتین کا حیض کی حالت میں سوشل بائیکاٹ کیا جاتا تھا، انھیں مجسم ناپاک سمجھا جاتا، اسی وجہ سے انھیں الگ تھلگ رکھا جاتا، یہاں تک کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا بھی پسند نہیں کیا جاتا۔

اسلام نے اس تصور کا رد کیا۔

رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے دریافت کیا:  کیا حائضہ عورت کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جا سکتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:  ہاں۔ (احمد:  ۱۹۰۰۷) ایک مرتبہ آپ ﷺنے ام المومنین حضرت عائشہؓ سے فرمایا:  مجھے چٹائی اٹھا کر دے دو۔ انھوں نے جواب دیا:  میں حیض سے ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:  اِنَّ الحَیضَۃَ لَیسَت فِی یَدِکِ۔ (مسلم:  ۲۹۸) ’’حیض تمھارے ہاتھ میں تھوڑی ہے۔‘‘

 عورت دورانِ حیض نہ نماز پڑھے گی، نہ روزہ رکھے گی، اس پر تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ وہ چھوٗٹی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں کرے گی، البتہ چھوٗٹے ہوئے روزوں کی اسے قضا کرنی ہوگی۔

اسی طرح حج کے دوران اگر اسے حیض آجائے تو وہ تمام مناسکِ حج انجام دے گی، البتہ طواف نہیں کرے گی۔ دورانِ حیض قرآن کی تلاوت کرنے سے بھی فقہا نے منع کیا ہے۔ (اگرچہ بعض فقہا اس کی اجازت دیتے ہیں۔)

 جہاں تک دورانِ حیض عورت کے نماز کے سوا کسی اور کام سے مسجد میں جانے کا معاملہ ہے تو زیادہ تر فقہا نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔ ان کے دلائل درج ذیل ہیں:

۱۔  اللہ تعالیٰ کا ارشا دہے: یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلوٰۃَ وَأَنتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُباً إِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتَّیَ تَغْتَسِلُواْ (النساء:  ۴۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو؟ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ غسل نہ کر لو۔‘‘ 

اس آیت میں ممانعت کا حکم نماز پڑھنے اور نماز کی جگہوں (مساجد) میں جانے، دونوں سے متعلق ہے۔ جنابت ناپاکی کی عارضی حالت ہے۔ جب اس میں مسجد جانا ممنوع ہے تو حیض،جو ناپاکی کی نسبتاً پائیدار حالت ہے، اس میں بدرجۂ اولیٰ ممانعت ہونی چاہیے۔۲

۔  ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ متعدد صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے تمام دروازوں کو دوسری طرف کھولے جانے کا حکم دیا۔

فرمایا:  وَجِّھُوا ھٰذِہٖ البُیُوتَ عَنِ المَسجِدِ، فَاِنِّی لا أُحِلُّ المَسجِدَ لِحَائِضٍ وَلا جُنُبٍ (ابو داؤد:  ۲۳۲)’’ ان گھروں کے دروازے دوسری سمت میں کرلو، اس لیے کہ میں جائز نہیں سمجھتا کہ کوئی حائضہ عورت یا جنبی مسجد میں آئے۔اسی مضمون کی حدیث سنن ابن ماجہ (۶۴۵)، السنن الکبریٰ للبیہقی (۴۳۲۳) اور صحیح ابن خزیمہ (۱۳۲۷) میں بھی مروی ہے۔ ح

حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیی  

 أَمَرَ [النَّبِیُّ ﷺ] الحُیَّضَ أن یَعتَزِلنَ مُصَلّٰی المُسلِمِینَ(بخاری:  ۲۳۴، مسلم:  ۸۹۰)

 نبی ﷺ نے حائضہ عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ نماز پڑھنے کی جگہوں سے دور رہیں۔

البتہ بعض فقہا حیض کی حالت میں عورتوں کے، نماز کے علاوہ کسی دوسرے کام سے مسجد میں جانے کو جائز کہتے ہیں۔ ان میں امام احمد ؒ(ایک روایت کے مطابق)، امام مزنی شافعیؒ، امام داؤد ظاہریؒ اور علامہ ابن حزمؒ قابلِ ذکر ہیں۔ ان حضرات کے دلائل درج ذیل ہیں:

 ۱۔ حجۃ الوداع کے دوران ام المومنین حضرت عائشہؓ کو حیض آگیا۔ وہ یہ سوچ کر رونے لگیں کہ اب وہ مناسکِ حج ادا نہ کر سکیں گی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 اِفعَلِی مَا یَفعَلُ الحَاجَّ، غَیرَ أن لا تَطُوفِی بِالبَیتِ حَتّٰی تَطھُرِی(بخاری:  ۳۰۵، مسلم: ۱۲۱۱)

 ’’وہ سب کرو جو حاجی کرتا ہے، بس پاکی حاصل ہونے تک طواف نہ کرو۔‘‘

 اس حدیث میں عورت کو دورانِ حیض طواف کے علاوہ سب کچھ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر اس حالت میں اس کے لیے مسجد ِحرام میں داخلہ جائز نہ ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ اس سے بھی منع فرما دیتے۔۲

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک حبشی عورت کسی عر ب قبیلے کی لونڈی تھی۔ اسے قبیلے والوں نے آزاد کر دیا تھا۔ چناں چہ وہ مسجد نبوی میں رہتی تھی۔ (بخاری:  ۴۳۹)

 ظاہر ہے کہ وہ عورت ہر ماہ کچھ ایام حیض سے دوچار ہوتی ہوگی، اس کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے اسے مسجد میں رہنے سے منع نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت دورانِ حیض مسجد میں رہ سکتی ہے۔

۔ اصل عدمِ حرمت ہے، یعنی جب تک کسی چیز کے سلسلے میں حرمت کی کوئی دلیل نہ ملے اسے مباح سمجھا جائے گا۔ اس مسئلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جس میں حائضہ عورت کو مسجد میں جانے سے روکا گیا ہو۔

 جواز کے قائلین ساتھ ہی ان دلائل پر نقد کرتے ہیں جنھیں مانعین پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورۂ النساء، آیت ۴۳کی روشنی میں مسجد میں نہ جانے کے سلسلے میں حائضہ کو جنبی پر قیاس کیا گیا ہے، حالاں کہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔

جنبی اپنی ناپاکی میں معذور نہیں ہے، جب کہ عورت معذور ہے۔ جنبی غسل کرکے فوراً پاک ہو سکتا ہے، جب کہ حائضہ عورت فوراً پاک نہیں ہو سکتی، بلکہ ایامِ حیض گزرنے کے بعد ہی پاکی حاصل کر سکتی ہے۔ آیت میں صرف جنبی کا تذکرہ ہے،حائضہ کا نہیں،اس لیے حائضہ کو جنبی پر قیاس کرنا درست نہیں۔

حضرت عائشہؓ سے مروی وہ حدیث، جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں حائضہ اور جنبی کے مسجد میں جانے کو جائز نہیں قرار دیتا، اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو ممانعت قطعی اور صریح ہوتی، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کے دو راوی افلت بن خلیفہ اور جسرہ بنت دجاجہ کو ماہرینِ حدیث:  ابن حجر (التلخیص الحبیر: ۱؍۱۴۰)،خطابی ( معالم السنن:  ۱؍ ۷ ۶ )، نووی (المجموع: ۲؍۱۶۰، خلاصۃ الاحکام: ۱۰؍۲۰۶۔۲۱۰)، ابن حزم (المحلی:  ۱؍ ۴۰۱)، بیہقی اور عبد الحق اشبیلی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

 حضرت ام سلمہؓ سے مروی حدیث میں رسول اللہﷺ نے عورتوں کو مصلّیٰ سے الگ تھلگ رہنے کو کہا ہے، مصلّیٰ کے دو معنی ہوتے ہیں، نماز اور نماز ادا کرنے کی جگہ۔ اس روایت میں ’مصلّیٰ‘ سے مراد جائے نماز نہیں، بلکہ نماز ہے۔ چناں چہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے :  فَاَمَّا الحُیَّضُ فَیَعتَزِلنَ الصَّلاۃَ (حدیث نمبر ۸۹۰)’’ حائضہ عورتیں نماز سے الگ رہیں گی۔‘‘ اور سنن دارمی میں ہے:  فَأَمَّا الحُیَّضُ فَاِنَّھُنَّ یَعتَزِلنَ الصَّفَّ (حدیث نمبر ۱۶۵۰) ’’ حائضہ عورتیں صف سے الگ رہیں گی۔‘‘

 موجودہ دور کے معروف محدّث علامہ ناصر الدین البانی ( م ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء) نے بھی حالتِ حیض میں عورت کے مسجدجانے کی اجازت دی ہے اور لکھا ہے کہ کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں پائی جاتی جس میں حائضہ عورت کو مسجد جانے سے روکا گیا ہو۔( تمام المنّۃ، ص ۱۱۹، ارواء الغلیل :  ۱؍ ۱۶۲ )

اس کے علاوہ، علامہ یوسف قرضاوی نے بھی اسی جواز کی رائے کو ترجیح دی ہے۔(فقہ الطھارۃ)

 میری رائے میں عورت ایامِ حیض میں نماز پڑھنے کے سوا دیگر کاموں کے لیے، مثلاً کسی دینی پروگرام سے استفادہ، کسی مشاورتی اجلاس میں شرکت، یا کسی کوچنگ کلاس میں حاضری کے مقصد سے مسجد میں جا سکتی ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ ان کاموں کا انعقاد مسجد کے ان حصوں میں نہ ہو جہاں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے، بلکہ اس سے ملحق دیگر جگہوں پر ہو۔