انیل کمارچوہان۔ خطاطی کے حیدرآبادی فنکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-01-2021
انیل کمار چوہان
انیل کمار چوہان

 

میں کہاں رکتا ہوں عرش وفرش کی آواز سے

مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے

'فنکار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ سرحدیں اس کے کام سے ماورا ہوتی ہیں۔ زبانیں فنکاروں کے لئے ہوتی ہیں اور زبان کا سیکھنا کسی بھی فنکار کے لئے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے، بس تھوڑی سے جستجو اور محنت درکار ہے۔ میری یہ عین خواہش اور تمنا ہے کہ میں اپنے فن کے نمونوں کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچاتے ہوئے مستحقہ مقام حاصل کروں۔'یہ الفاظ حیدرآباد کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کےامین بننے والے روشن ذہن اور روشن خیالات کے مالک مشہور فنکار انیل کمار چوہان کے ہیں جو حیدرآباد کا جانا پہچانا نام ہے۔ انہوں نے تقریباً 100 سے زائد مساجد میں آیات قرآنی لکھنے کا کام سر انجام دیا ہے۔

اس کام میں ابتدا میں ہوئی دشواریوں سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تو بعض افراد نے اس پر یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا کہ ایک غیر مسلم شخص کس طرح مساجد میں آیات قرآنی لکھ سکتا ہے لیکن اس کام میں ان کی دلچسپی اور کشش انہیں شہر حیدرآباد کے سرکردہ دینی مدرسہ جامعہ نظامیہ کی طرف کھینچ کر لے گئی جہاں سے انہوں نے فتوی حاصل کیا کہ ایک غیر مسلم آرٹسٹ مساجد میں آیات قرآنی، کلمہ طیبہ اور خلفائے راشدین کے نام لکھ سکتا ہے۔ اس کے بعد مساجد میں آیتیں لکھنے کا کام مزید آسان ہوگیا اور یہ سلسلہ چل پڑا جو ہنوز جاری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا لیکن اس میں انسان کی دلچسپی اور اس کی محنت، لگن اور مساعی کا دخل ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں جب چوہان نے اپنے کام کی ویڈیوز اپنے فیس بک اکاونٹ پر پوسٹ کئیں تو ان کو کافی پسند کیا جانے لگا یہاں تک کہ پڑوسی ملک میں بھی ان کے کام کی ستائش کی گئی۔ اس استفسارپر کہ آیا کسی بھی ملک سے ان کو کام کے سلسلے میں کوئی پیشکش آئی ہے تو انہوں نے اس کا نفی میں جواب دیا تاہم وہ پُرامید ہیں کہ ان کا کام ان کو ایک نہ ایک دن ترقی کی بلندیوں تک پہنچائے گا۔ چوہان جنہوں نے کئی مساجد میں بلا معاوضہ آیات قرآنی لکھنے کا کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ ابتدا میں وہ اپنے اس کام کے لئے کوئی معاوضہ یا ہدیہ نہیں لیا کرتے تھے تاہم چونکہ معاملہ روزی روٹی کا ہے اسی لئے وہ اب کام کا معاوضہ لینے کے لئے مجبور ہیں۔ پھر بھی اگر کوئی اہل خیر حضرات مدد کریں تو وہ معاوضہ نہیں لیں گے۔

انیل کمار چوہان نے کئی مشاعروں میں دوسروں کا لکھا ہوا نعتیہ کلام بھی پڑھا ہے جس کی ستائش کی جاتی ہے۔ مشرف بہ اسلام ہونے کے سلسلہ میں دی گئی دعوت کے بارے میں وہ کہتے ہیں: 'کئی لوگ اسلام کی دعوت دیتے ہیں لیکن میں ایک فنکار ہوں اور فنکار کا کام ہر مذہب کا احترام کرنا ہوتا ہے۔'ان کے کام میں اتنی سلاست اور نفاست ہے کہ یہ کام سب کو پسند آتا ہے اور دور دور سے لوگ کام کروانے کے لئے ان کے پاس آتے ہیں۔ چوہان نے تلنگانہ کے اضلاع کی مساجد میں بھی اپنے فن کے نقوش چھوڑے۔ ساتھ ہی جامعہ نظامیہ کے کتب خانہ میں بھی سورہ یٰسین کو تحریر کیا۔ ان کی مادری زبان مراٹھی ہے اور خاندان کا تعلق مہاراشٹرا سے ہے تاہم ان کا خاندان کئی دہائیوں پہلے حیدرآباد منتقل ہوگیا تھا اور ان کی پیدائش بھی اسی شہر میں ہوئی۔ ان کے ننیھال میں بھی آرٹسٹ گذرے ہیں لیکن کسی نے اردو میں کام نہیں کیا۔ یہ اعزاز صرف ان ہی کو حاصل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مساجد کے ساتھ ساتھ مندروں میں بھی فنکاری کا کام کیا ہے اور وہ حیدرآبادی گنگا جمنی تہذیب کے فروغ کا ذریعہ وعلمبردار بن رہے ہیں اور اپنے کام سے اس کا ثبوت دینا چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: 'میں نے اردو کے ساتھ ساتھ عربی، ہندی، تیلگواور بنگالی میں بھی کام کیا۔ میرے چھوٹے بھائی میرے معاون کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بچوں میں فن کے سیکھنے میں دلچسپی نہی چوہان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بچوں میں اس فن کو سیکھنے کی دلچسپی نہیں ہے۔ محلے کے دیگر نوجوانوں کو وہ یہ فن سکھانا چاہتے ہیں تاہم اس کے لئے نوجوانوں میں دلچسپی ہونی چاہئے۔

ایک استفسار پر ان کا کہنا ہے کہ خاندان والوں نے اس کام پر کوئی امتیاز یا اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کے لئے حوصلہ افزائی ہی کی۔ پیغام انیل کمارچوہان جنہوں نے باقاعدہ کسی سے اردو کی تعلیم حاصل نہیں کی، کا اردو سے محبت اوراردو دوستی کے حوالہ سے کہنا ہے کہ انہیں اس شیریں زبان سے محبت ہے، وہ اردو سائن بورڈس کو دیکھ کر اردو لکھتے لکھتے سیکھ گئے۔ان کا پیغام ہے کہ موجودہ دورمیں ہندو مسلم یکجہتی کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے مذاہب کی عزت کرنی چاہئے۔ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے کام کو پہچان دلانا چاہتے ہیں۔