بھگوت گیتا کسی ایک مذہب کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کا درس ہے۔ ہبہ فاطمہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-01-2023
بھگوت گیتا کسی ایک مذہب کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کا درس ہے۔ ہبہ فاطمہ
بھگوت گیتا کسی ایک مذہب کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کا درس ہے۔ ہبہ فاطمہ

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس 

بھگوت گیتا صرف ہندووں کے لیے نہیں ،اس مقدس کتاب سے ہر کوئی فیضیاب  ہو سکتا ہے۔ یہ انسان کی بات کرتی ہے اور انسانیت کا پیغام دیتی ہے ۔ قرآن پاک کی طرح  یہ بھی زندگی جینے کا طریقہ اور سلیقہ بتاتی ہے۔ 

یہ خیالات ہیں ریاست تلنگانہ کے ضلع نظام آباد کی طالبہ ہبہ فاطمہ  کے جنہوں نے بھگوت گیتا کا اردو میں ترجمہ کیا ۔ 

ہبہ فاطمہ نے آواز دی وائس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ  جب میں نے بھگوت گیتا کا ترجمہ شروع  کیا  تو اس وقت مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ مقدس کتاب  انسانیت کا درس ہے ۔

 ہبہ فاطمہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی خوبصورتی یہی ہے کہ ہم مذہبی رواداری کے علمبردار رہے ہیں ،یہی ہماری طاقت رہی ہے ،اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ ہم اپنی اپنی مقدس کتابوں کو پڑھ کر اور سمجھ کر اگر اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے لگے تو  ہر مسئلہ حل ہوجائے گا۔   

ہبہ فاطمہ کہتی ہیں کہ ہمیں تمام مذاہب کی یکسانیت پر غور کرنا چاہیے ۔ یہی طریقہ ایک دوسرے کے مذہب کے احترام کا جذبہ پیدا کرے گا۔ 

 پیش ہے ہبہ فاطمہ کا انٹرویو  

آواز دی وائس : بھگوت گیتا  کااردو ترجمہ کرنے کا خیال یا  تحریک آپ کو کہاں سے ملی اور اس کا کیا مقصد تھا ؟

ہبہ فاطمہ : میں ایک مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتی ہوں،ابتک زندگی کرائے کے مکان میں گزری ہے۔ اس لیے جب بھی نیا مکان لیا تو نئے پڑوسی ملے ۔کبھی ہندو اور کبھی مسلمان ۔ جب ہندو پڑوسی ملے تو اپنے پڑوسیوں کو پوجا کرتے  دیکھتی تھی۔ جس کے بعد میں نے کئی لوگوں سے ہندوازم کے تعلق سے سوالات کئے مگر کبھی بھی کسی ایک سوال کا ایک جواب نہیں ملا ۔ ہر ایک سے مختلف جواب ملے۔ کیونکہ جس کی جو جانکاری یا معلومات ہوتی ہے وہ اتنا ہی بیان کر سکتا ہے۔

اس نے میرے اندر ایک بے چینی پیدا کی ۔ میں نے سوچا کہ کسی بھی مذہب کے بارے میں صحیح اور سو فیصد درست معلومات کا ذریعہ کیا ہوسکتا ہے ؟ میں نے کئی لوگوں سے دریافت بھی کیا اور پھر اس نتیجہ پر پہنچی کہ خود ہندوازم کے مطالعہ کیا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ اہل خاندان نے اس سلسلے میں میری بھر پور حمایت کی اور ساتھ دیا۔ کسی کا ردعمل منفی نہیں تھا۔ جس کے بعد میں نےبھگوت گیتا  کا تفصیلی مطالعہ کیا،پھر ترجمہ ۔

awazurdu

 

آواز دی وائس : بھگوت گیتا کا ترجمہ کیسے کیا اور اس یں کیا دشواریاں آئیں ۔

ہبہ فاطمہ : میں آپ کو بتاوں کہ بھگوت گیتا حاصل کرنا بھی آسان نہیں تھا ،میرے والد نے بڑی مشکل سے مقدس کتاب کے دو نسخے منگائے جو ایک ہندی اور ایک تلگو میں تھے جبکہ میں اردو میڈیم کی طالبہ تھی اور مجھے یہ دونوں زبانیں نہیں آتی تھیں ۔ اس کے بعد میں نے انگلش کی بھگوت گیتا کو موبائل میں ڈاون لوڈ کیا۔ ایک ایک لفظ اور جملہ ترجمہ کرکے میں نے ایک بھگوت گیتا تیار کی تاکہ میں اس کو سکون سے پڑھ سکوں ۔ جب میں اس کے ترجمہ میں کامیاب ہوگئی تو میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا ۔ جوں جوں میں نے اس کو پڑھا میری دلچسپی بڑھتی گئی کیونکہ میں اس کتاب کو ہندو ازم کی حقیقت جاننے کے لیے پڑھ رہی تھی لیکن پھر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ کتاب صرف ہندووں کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ہے۔ ہر کسی کے لیے ہے۔ اس کتاب میں کہیں ہندو یا مسلمان کا ذکر نہیں ہے بلکہ بات انسان کی ہے۔انسانیت کی ہے ۔

آواز دی وائس : آپ نے قرآن پڑھا اور اب بھگوت گیتا کا ترجمہ کیا ۔آپ کو دونوں مذاہب میں کیا یکسانیت نظر آتی ہے ؟

ہبہ فاطمہ : جی ہاں! بالکل ۔ سب سے بڑی یکسانیت یہی ہے کہ دونوں مقدس کتابیں ہمیں انسانیت کا درس دیتی ہیں ۔مثال  کے طور پر اسلام میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ کی راہ میں کوئی پتھر یا رکاوٹ ہو تو اس کو ہٹا دیں تاکہ کسی اور کو مشکل نہ ہو۔ یہی بات گیتا میں بھی بتائی گئی ہے۔ یہ نہیں کہا گیا ہے کہ راستہ صاف کرنے سے قبل یہ دیکھوں کہ یہ کس جانب جارہا ہے مسجف کی جانب یا مندر کی جانب۔

 میں آپ کو بتا رہی ہوں کہ قرآن پاک انسانیت کا سبق دیتا ہے اور اگر ہم اس کی صرف ایک آیت پر بھی عمل کرتے ہیں تو یہ ہماری زندگی کو بدل دیتا ہے۔ یہی نہیں اگر ہم قرآن کی روشنی کی بات کریں تو غیر مسلم کے ساتھ حسن اخلاق کے بغیر اچھا مسلمان نہیں بن سکتے۔

 دوسری بڑی یکسانیت کی بات کروں تو وہ یہ ہے کہ دونوں مقدس کتابوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اللہ ہو ،بھگوان ہو یا ایشور ۔ وہ ایک ہی ہے ۔بلکہ آپ لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دنیا کے خالق کو الگ الگ روپ میں دیکھ رہے ہیں ۔دراصل دونوں مذاہب کی یکسانیت ایک بڑا موضوع ہے ۔جس پر میں خود لکھنا چاہتی ہوں تاکہ دنیا اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکے اور سمجھ سکے۔

awazurdu

 

آواز دی وائس : آپ اس بات کو مانتی ہیں کہ اگر ہر کوئی اپنی مقدس کتاب کو پڑھے،سمجھے اور اس پر عمل کرے تو موجودہ حالات میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے ؟

ہبہ فاطمہ : دیکھئے ! میں ایک بات سمجھ پائی ہوں کہ مقدس کتابیں کسی ایک فرقہ کے لیے نہیں ہوتی ہیں بلکہ انسانیت کا پیغام دنیا کو دیتی ہیں ۔اب اگر مسلمان یہ سمجھیں کہ قرآن صرف ان کی کتاب ہے تو یہ خیال غلط ہے ۔ ایسے ہی بھگوت گیتا کا معاملہ ہے۔ مسلمان بھگوت گیتا پڑھ سکتے ہیں اور ہندو قرآن ۔ لیکن اگر کوئی مسلمان اور کوئی ہندو ایک دوسرے کی مقدس کتاب کو پڑھنا نہیں چاہتا ہے تو کم سے کم اپنی مقدس کتاب بھی پڑھ لے۔ سمجھ کے پڑھ لے اور اس پر عمل کرلے تو موجودہ حالات میں جو مشکلات سامنے آرہی ہیں وہ ختم یا کم ہو جائیں گی۔ 

آواز دی وائس:  آپ  کے لیے یہ تجربہ کیسا رہا؟ 

ہبہ فاطمہ :  یہ تجربہ بہت اچھا رہا ،انسان جو محنت کرتا ہے تو کچھ حاصل ہی ہوتا ہے۔ میں نے جہاں  بھگوت گیتا کو پڑھا اور سمجھا ۔ وہیں سنسکرت بھی سیکھ لی۔  جب میں نے ترجمہ کا کام شروع کیا تھا تو ایک دن میں ایک اشلوک کا ترجمہ مکمل کیا تھا۔لیکن جیسے جیسے کام کرتی گئی میری رفتار میں اضافہ ہوتا گیا ۔ جب میں نے یہ کام مکمل کیا تو آخری دن میں نے پچیس اشلوک کا ترجمہ کیا تھا۔ سنسکرت میں اسقدر تیزی آگئی تھی کہ میں گھر میں اپنی بہن سے لڑتی تھی یا بحث ہوتی تھی تو اس میں سنسکرت کا استعمال کرتی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ  مجھے ہندو دھرم کے بارے میں بھرپور معلومات مل گئی اب میں بھگوت گیتا کے ہر پیغام کو سمجھ چکی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ  اس موضوع پر بہت کام ہوسکتا ہے۔ مذاہب کی یکسانیت پر بات ہوسکتی ہے۔ 

awazurdu

ہبہ فاطمہ: اپنے تعلیمی دور کی کامیابیوں کے ثبوتوں کے ساتھ

آواز دی وائس:بھگوت گیتا ایک مقدس کتاب ہے اس کا ترجمہ کرنے میں آپ نے کسی کی مدد لی ؟ کوئی ایسا لسانی یا مذہبی ماہر جو اس کی تصدیق کرسکے کہ ترجمہ صد فیصد درست ہے ؟

ہبہ فاطمہ : جی ہاں! یہ بہت بڑا کام تھا اور نازک بھی ۔میں خود فکر مند تھی کہ کہیں کوئی چوک نہ ہوجائے۔کیونکہ میں سوچ رہی تھی کہ اللہ نہ کرے کوئی غلطی ہوگئی تو وہ دنیا میں بھی پکڑ ہوگی پھر آخرت میں بھی ۔ دراصل پونے میں ساجد صدیقی صاحب ہوتے ہیں جنہوں نے ماضی میں کئی سال کی محنت کے بعد بھگوت گیتا کا ترجمہ کیا تھا۔ جب میں نے یہ کام شروع کیا تھا تو مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ملک میں اردو ترجمہ موجود ہے ۔اس کے بعد میں نے ساجد صدیقی صاحب کی ترجمہ کردہ بھگوت گیتا منگائی۔اس کو سامنے رکھکر اپنے ترجمہ کو پرکھا۔ اس بات کو محسوس کیا کہ میرا ترجمہ درست ہے لیکن اس کے بعد مذہبی نزاکت کے سبب میرے والد اپنے ایک دوست پنڈت جی کے پاس لے گئے جنہوں نے بہت وقت لگا کر اس کو چیک کیا اور ہری جھنڈی دکھائی ۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے بہت شاباشی دی ۔

آواز دی وائس : بھگوت گیتا کے ترجمہ کے بعد آپ کو کس طرح کے ردعمل ملے۔ خواہ مسلمانوں کے ہوں یا ہندووں کے ۔

 ہبہ فاطمہ : بالکل ! دلچسپ  بات یہ ہے کہ جتنا تعلیم یافتہ انسان ملا اس کا ردعمل اتنا ہی مثبت تھا اور کم تعلیم یافتہ کی سوچ مختلف ملی۔ یعنی جتنا علم ہوتا ہے اتنا مثبت ردعمل ملا۔۔ خاص طور پر علما اکرام نے اس کی بہت سراہنا کی اور میری حوصلہ افزائی کی ۔ ہمارے ٹاون کے اکبر صدیقی صاحب ہیں انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو ایک بھائی کے طور پرمجھے یاد کرنا ۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔ کیونکہ ان کے پاس علم ہے اس لیے انہوں نے اس کو سراہا ہے ۔ اسی طرح سے مہاراشٹر ،تلنگانہ اور کرناٹک سے تمل ناڈو سے  ہندو تنظیموں  نے رابطہ کیا اور مجھے مختلف پروگرامز میں مدعو کیا۔  لوگوں نے سراہا ۔

منفی اثر یہ ہے کہ جب کرائے کا مکان تلاش کررہی تھی تو ہندو ،مسلمان ہونے کے سبب مکان نہیں دے رہے تھے اور مسلمان میرے نظرئیے کے سبب  مجھے   مکان دینے کو تیار نہیں تھے۔

 ایک جنون تھا ۔۔۔ منزل مل گئی 

 آواز دی وائس :  ملک کے موجودہ حالات میں کیا نئی نسل کے لیے یہ ضروری نہیں کہ گنگا جمنی تہذیب کا مضبوط کرےاور ملک میں مذہبی رواداری کی روایت کو مستحکم کرے۔؟

ہبہ فاطمہ : دیکھیں ! ہم سب ایک ہیں ،اللہ ہو یا پرمیشور اس نے ہمیں انسان بنایا ہے۔اس نے پیدا کرتے ہوئے کوئی فرق نہیں کیا ۔ کوئی نشانی نہیں دی جو انسان اور انسان میں فرق ہو۔ہمیں اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم جنگ آزادی میں ایک ساتھ لڑے تو کامیاب رہے تھے۔لیکن اگر اختلافات کا شکار ہوئے تو کمزور پڑ جائیں گے۔

مہاتما گاندھی ہوں یا مولانا آزاد سب نے بڑی بڑی قربانیاں دیں ۔کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ قربانی ہندو کے لیے یا مسلمان کے لیے ۔ان کی لڑائی اور قربانیا ں ملک کے لیے تھیں ۔جس میں ہندو ،مسلم سکھ اور عیسائی سب تھے۔ میرا ماننا ہے کہ ان قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانا چاہیے ہمیں ان کا احساس ہونا چاہیے۔

میں تو مانتی ہوں کہ ملک کے جو حالات ہیں اس میں کسی دشمن کو باہر سے آکر تکلیف دینے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کام کے لیے ہم ہندوستانی ہی کافی ہیں۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سرزمین ’’سارے جہاں سے اچھی ‘ ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ مکمل آزادی اور مساوات کے ساتھ رہتے ہیں ۔ ہم بس ایک دوسرے کے مذاہب کااحترام کرلیں اور انسانیت کو ترجیح دیدیں ۔

 آواز دی وائس : بھگوت گیتا کے اردو ترجمہ کا کیا اثر ملا ہے۔ آگے کیا ارادہ ہے ،کیا اس کے مزید ایڈیشن شائع کریں گی ؟

ہبہ فاطمہ : جی میں خوش ہوں ،ہر کسی نے سراہا ہے۔ میرا مقصد کوئی کاروباری نہیں ۔ میں نے سیکھنے اور علم میں اضافہ کی نیت سے ترجمہ کیا۔ میں نے ترجمہ کرکے جو علم حاصل کیا وہی میرے لیے ایک دولت ہے۔ میں کوشش کررہی ہوں کہ لوگ مذہبی رواداری کی جانب راغب ہوں ،لوگوں میں برداشت بڑھے۔ اس سلسلے میں اسلام اور ہندو دھرم کی یکسانیت پر کام کررہی ہوں ۔

مجھے یقین ہے کہ جتنا مجھے گیتا کے اردو ترجمے کو سراہا گیا ہے اتنا ہی میری دوسری کوشش کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ میں نے بھگوت گیتا پڑھی اس کا ترجمہ کیا۔ اس نتیجہ پر پہنچی کہ یہ کتاب کسی ایک مذہب کے لیے نہیں ہے بلکہ اس سے سب فیضیاب ہوسکتے ہیں ۔انسانیت کے سبق کےلیے آپ کسی بھی کتاب کو پڑھ سکتے ہیں اب میں گرو گرنتھ صاحب کا مطالعہ کررہی ہوں اس کا ترجمہ کرنے کی تیاری کروں گی ۔تعلیمی مصروفیت کے سبب یہ کام مکمل نہیں ہو سکا ہے لیکن اب میرا نشانہ ہے کہ میں قرآن ،گیتا اور گرنتھ میں یکسانیت کو دنیا کے سامنے پیش کروں ۔

awazurdu

محنت رنگ لائی 

 آواز دی وائس : آپ اپنے نظرئیے اور سوچ کو کس طرح فروغ دینے کی کوشش کریں گی ؟

 ہبہ فاطمہ : جی ! بالکل  میں نے اپنا یو ٹیوب چینل بنایا ہے ۔ میسیج فار آل بائی ہبہ فاطمہ کے نام سے اس چینل میں ایسے پیغامات دینے کی کوشش کرتی ہوں جو مختلف مذاہب کی یکسانیت کو اجاگر کرتے ہیں  میری اب ایک بڑی خواہش ہے کہ۔ میں اس سلسلے کو نیا رنگ دینا چاہتی ہوں ،ایک نئی شکل میں لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کررہی ہوں ۔اسی لیے ایک ایسا کلاس شروع کروں جو خواہ آف لائن ہو یا آن لائن جس میں ہر مذہب کا بچہ آئے اور اس میں ہر مذہب کی مقدس کتاب قرآن ہو ،گیتا یا گرو گرنتھ کو پڑھا جائے گا ۔ انشا اللہ