ایشیاکامعززترین روحانی گھرانا:خاندان اعلیٰ حضرت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-02-2022
ایشیاکامعززترین روحانی گھرانا:خاندان اعلیٰ حضرت
ایشیاکامعززترین روحانی گھرانا:خاندان اعلیٰ حضرت

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

برصغیرکی جن درگاہوں پر سب سے زیادہ ازدہام ہوتا ہے،ان میں بریلی کی درگاہ اعلیٰ حضرت بھی شامل ہے۔ یہ عالمی شہرت کی حامل ہے اور دنیابھر سے یہاں زائرین آتے ہیں۔اسے ایک مخصوص نظریہ رکھنے والے مسلمانوں کے مرکز کے طور پر بھی دیکھا جاتاہے لہٰذا ملک کے سیاست داں بھی اکثر اپنے سیاسی اغراض ومقاصد کے تحت یہاں آتے رہتے ہیں اور  وابستگی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔

پچھلے دنوں 103ویں عرس اعلٰی حضرت کے موقع پر کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے چادر روانہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خاندان اور پوری کانگریس پارٹی کا درگاہ اعلی حضرت اور آپ کے خاندان سے جو رشتہ ہے وہ تاریخی اور بے حد مستحکم ہے اور میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہماری آئندہ نسلوں تک قائم و دائم رہے گا۔

awaz

غازی آباد میں واقع اعلیٰ حضرت حج ہائوس

واضح ہوکہ رواں اترپردیش اسمبلی کے الیکشن میں درگاہ اعلیٰ حضرت سے تعلق رکھنے والے مولاناتوقیر رضا خان نے کانگریس پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ماضی میں مولانا توقیر رضاخان کی اپیل کا اثر بریلی اور اس کے قرب وجوار کی کچھ سیٹوں پر ہوا تھا۔واضح ہوکہ اعلیٰ حضرت اپنے عہد کے ایک معروف عالم دین وفلسفی تھےاور اس لحاظ سے ان کا ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے افراد کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔

عموماً اس خاندان نے خود کو مذہب تک ہی محدود رکھا مگر بعض افراد خاندان نے سیاست میں بھی ہاتھ آزمایا مگر خاندان کا احترام اور تقدس مذہبی خدمات کی بنیاد پر ہی رہا ہے۔ اعلیٰ حضرت کے بعد ان کے بیٹے مولاناحامدرضا خان اورمفتی اعظم ہندمصطفےٰ رضاخان اہمیت کے حامل رہے۔ اسی خاندان کے مفتی اختررضاخاں ازہری اپنے لاکھوں مریدین اور عقیدت مندوں کے سبب دنیا کے پانچ سو بااثر مسلمانوں میں شامل تھے۔

اعلیٰ حضرت کون؟

مولانااحمد رضا خان بریلوی، معروف عالم دین گذرے ہیں جنھیں عرف عام میں اعلیٰ حضرت کہا جاتا ہے اور ’’امام‘‘ کے لقب سے یادکیا جاتاہے۔ان کی پیدائش14 جون 1856کو بریلی کے محلہ سوداگران میں ہوئی اور28 اکتوبر 1921 میں ان کا انتقال ہوا۔

وہ صاحب بصیرت عالم دین ،فقیہ، فلسفی، منطقی، صوفی، شاعراور ریاضی داں تھے۔ انھوں نےبڑی تعداد میں فتاویٰ لکھے جو، اب کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے قرآن کریم کا ترجمہ بھی کیا جو کنزالایمان کے ٹائٹل کے ساتھ اب متعدد زبانوں میں دستیاب ہے۔ان کا نعتیہ شعری مجموعہ ’حدائق بخشش‘ ہے۔

awaz

اعلیٰ حضرت کے اعزازمیں اکسپریس ٹرین کا نام اعلیٰ حضرت اکسپریس رکھا گیا

اعلیٰ حضرت کو تصوف سے گہرا شغف تھا۔ وہ اولیاکرام کا بے حد احترام کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے فتووں اور کتابوں میں بزرگان دین کی کتابوں کے حوالے بڑے پیمانے پر پیش کئے ہیں۔وہ تصوف کے سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتے تھے۔ 22 سال کی عمر میں،اعلیٰ حضرت، شاہ آل رسول مارہروی سے مرید ہوئے۔ ان کے مرشد نے انہیں کئی صوفی سلسلوں کی خلافت واجازت سے نوازا۔ ان کے اور ان کے بعد ان کی اولاد کے ذریعے اس سلسلے کی برصغیر میں بڑے پیمانے پر اشاعت ہوئی۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کے نام پر حکومت ہند نے’’اعلیٰ حضرت ایکسپریس‘‘ٹرین چلائی جوابتدا میں بریلی اوراجمیر کے درمیان چلتی تھی،اب آگے بھی جاتی ہے۔

حکومت ہندنے 31 دسمبر 1995 کوان کے اعزاز میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔

اترپردیش کے غازی آباد میں حج ہائوس ہے جس کا نام ان کے اعزاز میں اعلیٰ حضرت حج ہاؤس رکھا گیاہے۔

بریلی ایئرپورٹ کا نام بھی ان کے احترام میں اعلیٰ حضرت ٹرمینل،رکھا گیاہے۔

خاندان اعلیٰ حضرت کا تاریخی پس منظر

awaz

اعلیٰ حضرت کی یاد میں جاری ڈاک ٹکٹ

اعلیٰ حضرت کا تعلق افغانستان کےپشتون طبقے کے قبیلہ بڑھیچ سے تھا۔عہل مغل میں جب ہندوستان کا دائرہ افغانستان تک پھیلا ہواتھاتب اس خاندان کے افراد پہلے لاہور، پھر دہلی اور بعد میں بریلی آئے۔تاریخی سچائی یہ بھی ہے کہ روہیل کھنڈ میں بڑی تعداد میں روہیلاپٹھانوں کی بستیاں ہیں جوہر دور میں اہمیت کے حامل رہے ہیں۔

انھیں پٹھانوں نے انگریزوں کے دانت کھٹے کئے تھے اور انھیں خطے میں قدم جمانے سے روکے رکھا تھا۔انھیں خاندانوں میں اعلیٰ حضرت کا خاندان بھی شامل تھا۔

خاندان کے بزرگ عہد مغل میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔بعد کے دور میں بھی وہ علمی حیثیت سے ممتازرہے۔حالانکہ یہ خاندان اب خالص پشتون نہیں رہاکیونکہ رشتہ داریاں دوسرے طبقوں میں بھی ہوتی رہی ہیں اور دوسری نسلی دھارائیں آکر اس ندی میں ملتی رہی ہیں۔

اعلیٰ حضرت کے والد مولانانقی علی خان پشتون تھے جب کہ والدہ حسینی خانم مغل تھیں۔اعلیٰ حضرت کے نواب نانااسفندیاربیگ لکھنوسے تھے۔اعلیٰ حضرت کی اہلیہ محترمہ ارشاد بیگم ’’عثمانی‘‘ تھیں اور رام پور کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔

خاندان اعلیٰ حضرت کی عالمی اہمیت

awaz

درگاہ اعلیٰ حضرت جس میں اعلیٰ حضرت اور ان کے صاحبزادوں کی قبریں ہیں

اعلیٰ حضرت مولانااحمد رضا بریلوی نے اپنے علمی کاموں کی بنیاد پر اپنے عہد میں ہی عزت وشہرت حاصل کرلی تھی۔حالانکہ جو آج بھی ان کی اہمیت برقرارہے، اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ انھیں اپنا رہنما مانتاہے اور خود کو ’’بریلوی‘‘ کہتا ہے۔اس نظریے کےمدرسے،مساجداورمذہبی ادارے بڑی تعداد میں موجودہیں۔ یہ طبقہ خود کو اولیا،صوفیہ، بزرگان دین کا پیروکار قراردیتاہے۔

اس طبقے کی عقیدت ،اعلیٰ حضرت اوران کی اولاد کے تئیں گہری ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی دینی اور روحانی رہنمائی کے لئے بریلی کی جانب دیکھتا ہےاورخاندان اعلیٰ حضرت کی اہمیت ایک صدی بعد بھی کم نہیں ہوئی ہے بلکہ احترام میں اضافہ ہی ہواہے۔

بریلوی تحریک ،پاکستان، ہندوستان،بنگلہ دیش، نیپال،افریقی ممالک، لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ ساتھ یوروپ وامریکہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ تحریک کے آغاز میں دیہی رجحان غالب تھا لیکن فی الحال شہری، تعلیم یافتہ لوگوں کے بیچ بھی بے حد مقبول ہے۔ ماضی قریب میں جب دہشت گردی کا شوروغوغابڑھاتو صوفی نظریہ کے حامل مسلمانوں کوامن پسند کے طور پر دیکھا گیااور یہ طبقہ خود کو تصوف پسند کے طور پر پیش کرتاہے۔

خاندان کے اہم افراد

اعلٰی حضرت کے بڑے بیٹے مفتی حامد رضا خان درگاہ کے پہلے سجادہ نشین ہوئے۔ اس کے بعد دوسرے سجادہ نشیں مولانا ابراہیم رضا خان بنائے گئے، تیسرے مولانا ریحان رضا خان، چوتھے مولانا سبحان رضا خان اور اس وقت مفتی احسن رضا خان قادری درگاہ اعلیٰ حضرت کے سجادہ نشین ہیں۔حالانکہ خاندان کے دوسرے افراد بھی اہیمت کے حامل رہے جن میں مفتی مصطفےٰرضاخاں اور مفتی اختررضاخان ازہری شامل ہیں۔  

درگاہ سے جڑے ہوئے کچھ دینی مدرسے ہیں۔انھیں اعلیٰ حضرت اور ان کے اہل خاندان نے قائم کیاہے۔ یہ آج بھی چل رہے ہیں۔یہاں سے آج بھی فتوے جاری ہوتے ہیں۔ اس کے لئے ملک کے بڑے بڑے مفتیان کرام کی ٹیم کام کرتی ہے۔

یہاں سے جاری ہونے والے فتووں نے کئی بار حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ سترکی دہائی میں جب ایمرجنسی اور نس بندی کا زرو تھا تویہاں سے نس بندی کے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا تھا، اس کے ساتھ حافظ سعید اور دہشت گردی کے خلاف بھی فتویٰ جاری کئے گئے۔

مفتی حامدرضاخاں

خاندان اعلیٰ حضرت کی علمی وروحانی وراثت کو آگے بڑھانے کا کام اعلیٰ حضرت کے بڑے بیٹے مولاناحامد رضا خان نے کیا۔انھیں ’’حجۃ الاسلام‘‘ کے لقب سے یادکیا جاتاہے۔وہ ایک معروف عالم دین اور صوفی تھے۔وہ شاہ ابو الحسن احمد نوری کے مرید و خلیفہ تھے اور ساتھ میں اپنےوالد ماجد سے بھی تمام سلاسل میں اجازت وخلافت حاصل تھی۔ان کے مریدین بھی بڑی تعداد میں تھے۔پیدائش1875ء کوبریلی میں ہوئی اور23 مئی 1943ء کو انتقال کیا۔  

مفتی مصطفٰی رضا خان قادری

اعلیٰ حضرت کے دوبیٹوں میں مفتی مصطفےٰرضاخاں قادری چھوٹے تھے۔انھیں’مفتی اعظم ہند‘کے نام سےخوب شہرت ملی۔انھوں نے بڑی تعداد میں فتوے جاری کئے جن میں نسبندی سے متعلق فتویٰ سب سے زیادہ مشہور ہوااور ستر کی دہائی میں کانگریس کی حکومت کے لئے گلے کی ہڈی بن گیا۔انھوں نےاپنی تنظیم جماعت رضائے مصطفٰی بناکرشدھی تحریک کے خلاف جدوجہد کی۔

انہوں نے اپنے والد کے قائم کردہ ادارےجامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی میں تقریباً تیس سال تک درس دیا۔ مفتی اعظم ہند نے کچھ کتابیں اور کتابوں پر حاشیئے وغیرہ لکھے۔ حالانکہ عوام کے بڑے طبقے کی ان سے وابستگی کا سبب پیری مریدی کا سلسلہ تھا۔

ان کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں تھی جن کا تعلق ہندوستان،پاکستان، بنگلہ دیش کے علاوہ دوسرے ملکوں سے بھی تھا۔ ان کے شاگردوں اور خلفا کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی۔ مفتی اعظم ہند کی ولادت 7 جولائی 1893ءکومحلہ سوداگران ،بریلی میں ہوئی۔جب کہ 11 نومبر 1981ء کو یہیں انتقال بھی ہوا۔

مفتی اختررضاخان ازہری

awaz

مفتی اختررضاخاں ازہری مرحوم

جن افراد نے خاندان اعلیٰ حضرت کی شاندارروایات کی پاسداری کی اور اسے چارچاند لگایا، ان میں ایک نمایاں نام مفتی اختررضاخان ازہری(مرحوم)کا ہے۔یہ اعلیٰ حضرت کے پڑپوتے تھے اور دنیا کے بااثر مسلمانوں میں شمار کئے جاتے تھے۔

اردن کی رائل اسلامک سوسائٹی جو ہرسال دنیا بھر کے سب سے زیادہ بااثر مسلمانوں کی درجہ بندی کرتی ہے، نے انھیں دنیا کے پانچ سو بارسوخ مسلمانوں میں بائیسویں نمبر پر رکھا تھا۔اصل میں ان کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک بڑا طبقہ ان کے عقیدت مندوں کا بھی ہے۔

وہ ملک کے علماوفقہا میں ممتازحیثیت کے حامل تھے۔انھوں نے اپنی خاندانی روایت کے مطابق فتاویٰ نویسی کی،کتابیں لکھیں،شاعری کی اور پیری مریدی کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ حالانکہ وہ خوش بیان مقرر بھی تھے اور دینی جلسوں میں ان کی تقریر سننے کے لئے لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوجاتا تھا۔

وہ عام طور پر ’’تاج الشریعہ‘‘ کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ ان کی پیدائش بریلی، محلہ سوداگران میں 2 فروری 1943 کو ہوئی اور20 جولائی 2018ء کو انتقال ہوا۔ ان کے جنازے میں مسلمانوں کا جم غفیر تھا۔ اس سے پہلے بریلی والوں نے کسی کے جنازے میں ایسی بھیڑ نہ دیکھی تھی۔

مفتی عسجد رضا خان

مفتی اختررضاخان ازہری کی وراثت کو آگے بڑھانے کا کام ان کے اکیاون سالہ صاحبزادے مفتی عسجد رضا خان بریلوی کر رہے ہیں۔وہ جہاں اپنے والد کے لاکھوں مریدین کی روحانی تربیت کا ذمہ سنبھالے ہوئے ہیں،وہیں ان کے علمی کاموں کو بھی آگے لے جارہے ہیں۔ وہ اپنے والد کے قائم کردہ مدرسے کی ذمہ داری بھی سنبھالتے ہیں۔ انھوں نے دہشت گردانہ اور شدت پسندانہ نظریات کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے۔

سیاست اورمولاناتوقیررضاخاں

awaz

مولاناتوقیررضاخاں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے

خاندان اعلیٰ حضرت کے افراد کو عموماً سیاست سے دور مذہبی وروحانی رول میں ہی دیکھا گیا ہے مگر کبھی کبھی وہ سیاست میں بھی نظر آئے ہیں۔ عہدحاضر میں اس کی ایک مثال مولاناتوقیررضا خان ہیں۔انھوں نے اپنی نیم سیاسی تنظیم اتحاد ملت کونسل بنائی ہے۔

اتحاد ملت کونسل نے ایک بار میونسپل الیکشن میں حصہ بھی لیا تھا اور10 سیٹیں جیتی تھیں۔ پارٹی کے میئر کے امیدوار نے بھی36,000 ووٹ حاصل کیے۔ 2009 کے عام انتخابات میں،مولاناتوقیر رضا خان نے انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت کی تھی۔

اس حمایت سے کانگریس کے امیدوار پروین سنگھ ارون نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار اور چھ بار رکن پارلیمنٹ سنتوش گنگوار کو شکست دیا۔ 2012 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں، انہوں نے سماج وادی پارٹی کے لیے اپنی حمایت دی جب کہ 2014 کےعام انتخابات میں،وہ بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ گئے۔

مئی 2013 میں سماج وادی پارٹی نےمولانا کو ہینڈلوم کارپوریشن کا وائس چیئرمین مقرر کیا۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ چیف منسٹر اکھلیش یادو کے دور میں ریاست میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے۔

تاہم، ستمبر 2014 میں انہوں نے مظفر نگر فسادات کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے سماج وادی کی قیادت والی حکومت پر مسلم شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہونے کا الزام لگایا۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقات کا ان کا مطالبہ پورا نہیں ہوا ہے۔ رواں یوپی اسمبلی الیکشن میں مولانا کی حمایت کانگریس پارٹی کے لئے ہے۔