منصور الدین فریدی : نئی دہلی
اللہ رکھا رحمان ۔۔۔۔۔ اے آر رحمان ۔۔۔ بالی ووڈ کے نہیں اب دنیا میں موسیقی کے بڑے ناموں میں سے ایک ہیں ۔معروف موسیقار و گلوکار جنہوں نے ہندوستانی موسیقی کو بین الاقوامی سطح پر خصوصی شناخت دلائی ہے۔۔ رحمان کی موسیقی میں کبھی مغربی دھن سنائی دیتی ہے تو کبھی کلاسیکل موسیقی تو کبھی صوفی سنگیت تو کبھی جازبہرحال اے آر رحمان کو زیادہ عوام میں پذیرائی صوفیانہ کلام پیش کرنے کی وجہ سے ملی۔اس کے ساتھ سال 1997 آزادی کی ۵۰؍ویں سالگرہ کے موقع پر رحمان نے ایک البم ’وندے ماترم‘ بنایا تھا جسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔آج کے دور میں بالی ووڈ میں اے آر رحمان کا میوزک فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
اے آر رحمان موسیقی کا سلطان
ایک ہندو گھرانے میں جنم لینے والے رحمان کی زندگی بھی کسی فلمی کہانی سے کم نہیں ہے،اتار چڑھاو نہیں بلکہ مذہب کی تبدیلی بھی ان کی کہانی کا اہم اور دلچسپ حصہ ہے۔اگر بات کریں ان کے خاندان کے پس منظر کی تو چنئی می6 جنوری کو ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے اے آر رحمان کے والد آر کے شنکر کیرالا فلم انڈسٹری میں تمل اور دیگر زبان کی فلموں میں موسیقار تھے۔ بچپن سے ہی رحمان بھی اپنے والد کی طرح ہی موسیقار بننا چاہتےتھے۔موسیقی کی جانب ان کے بڑھتے رجحان کو دیکھ ان کے والد نے حوصلہ افزائی کی اور انہیں موسیقی کی تربیت دی۔ رحمان نے 23 سال کی عمر میں 1989 میں اسلام قبول کیا تھا۔ رحمان کے مطابق ان کے لیے اسلام کا مطلب سادہ طریقے سے زندگی جینا اور انسانیت اہم ترین ہیں۔ جبکہ اسلام ایک سمندر ہے۔ اس میں 70 سے زیادہ مسلک ہیں۔ میں صوفی مسلک پر عمل کرتا ہوں جس میں محبت کو بڑی اہمیت ہے۔ جو بھی ہوں وہ اسی کی وجہ سے ہوں۔ اور اسی پر میں اور میرا خاندان عمل پیرا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تاہم جس علاقے میں وہ رہتے تھے وہاں پر مسلم آبادی بھی موجود تھی، جس کی بدولت ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم دونوں مذاہب کے تہواروں میں حصہ لے سکیں، ن کی والدہ صوفی ازم کی پیرو کار تھیں، جس کی وجہ سے میں اسلام کی جانب راغب ہوا۔ اے آر رحمان نے کہا کہ اسلام ایک سمندر ہے، میں نے صوفی ازم کے فلسفے کو اپنایا جو کہ صرف محبت پر مبنی ہے جب کہ آج میں جو بھی ہوں اپنے اسی فلسفے کی وجہ سے ہوں۔
جدوجہد ،فن اور مقبولیت
المیہ یہ رہا کہ وہ صرف 9برس کے ہی تھے جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی والدہ نے اپنے شوہر کے موسیقی کے آلات کو کرایہ پر دے کر گزر بسر شروع کی۔ گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اے آر رحمان نے کم عمری میں ہی کام کرنا شروع کر دیا۔ والد کے انتقال کے بعد رحمان نے بہت جدوجہد کی ۔پہلے پیانو اور پھرگٹار بجانا سیکھا اور چنئی کے چند نوجوانوں کے ساتھ مل کر انہوں نے اپنا ایک مقامی بینڈ ’نمیسیس ایونیو‘ بنایا۔جس کے تحت انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منویا ساتھ ہی مقبولیت بھی حاصل کی۔ اپنی صلاحیتوں پر انہوں نے گھر کی ذمہ داریوں کو حاوی نہیں ہونے دیا ،جس کے سبب وہ پر وفیشن میں بھی قدم بڑھاتے گئے۔ کچھ دنو بعد ہی انہیں تیلگو میوزک ڈائریکٹر کے ساتھ ورلڈ ٹور پر جانے کا موقع ملا۔یہاں ان کا فن دنیا کے سامنے آیا اور پھر انہیں آکسفورڈ کی ٹرینیٹی کالج کی اسکالر شپ ملی جس نے رحمان کی موسیقی کی تشنگی کو پورا کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا اور انہوں نے موسیقی میں گریجویشن کیا۔ رحمان نے کبھی کامیابی کا نشہ نہیں چڑھنے دیا، ان کے پیر ہمیشہ زمین پر ہی رہے،انہوں نے بالی ووڈ میں کامیابی کے بعد کبھی علاقائی فلموں کو نظر انداز نہیں کیا۔انہوں نے صرف بالی ووڈ میں موسیقی دینے پر اکتفا نہیں کیا۔ کرناٹک موسیقی، کلاسیکل موسیقی اور جدید موسیقی ملا کر سامعین کو ایک مختلف موسیقی دینے کی کوشش کی اور اپنے انہی امتیازات وخصوصیات کی وجہ سے وہ سامعین میں بہت مقبول ہو گئے۔
اے آر رحمان نے موسیقی کو ایک نئی بلندی دی
اے آر رحمان کا انداز صوفیانہ رہا ہے
بالی ووڈ میں عروج
سال 1992 رحمان کے فلمی کریئر کے لئے اہم ثابت ہوا۔ ان کی ملاقات جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے فلمساز منی رتنم سے ہوئی جو اپنی فلم ’روجا‘ میں مصروف تھے اور فلم کے لئے موسیقار کی تلاش کررہے تھے انہوں نے رحمان کو موسیقی دینے کا موقع دیا۔ رحمان کی موسیقی نے پہلی ہی فلم میں وہ جادو دکھایا کہ انہیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس کے بعد رحمان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بالی ووڈ فلموں کی لائن لگ گئی لیکن رحمان نے ہر فلم میں کام کرنا منظور نہیں کیا۔ ان کی فلم ’دل سے‘ کےنغموں نے دھوم مچا دی اور گلزار کے ساتھ ان کی جوڑی جم گئی۔رنگیلا ، تال، سودیس ، رنگ دے بسنتی ، گرو اور جودھا اکبر وہ چند فلمیں ہیں جن کی موسیقی نے رحمان کو بالی ووڈ میں بلندیوں پر پہنچا دیا۔
قوالی کی واپسی
’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے‘ سے لے کر ’نہ تو کارواں کی تلاش ہے‘ اور ’تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘ سمیت بیشتر فلمی قوالیاں تصوفانہ کے بجائے عاشقانہ رنگ میں رنگی ہوتی تھیں۔ جس طرح بھجن فلم میوزک کا حصہ چلا آ رہا تھا، ویسے ہی مسلم سماجی پس منظر کے ساتھ دربار اور قوالی کو باقاعدہ منسوب کرکے دیکھنا اے آر رحمان سے پہلے بالی وڈ میں باقاعدہ رجحان کی صورت کبھی نہ تھا۔ فلمی میوزک میں انقلاب برپا کرنے والے اے آر رحمان قولی کی نئی جمالیاتی تشکیل میں بھی اس مقام پر ہیں جہاں دیگر معاصر موسیقار ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ رحمان نے قوالی جیسی مقامی صنف میں جدید مغربی آلات موسیقی کا استعمال اس نزاکت سے کیا کہ جمالیاتی احساس ذرا بھی مجروح نہیں ہوتا۔ کلام عارفانہ ہو، عاشقانہ ہو یا دونوں کی آمیزش بہرحال ایسے گیتوں کی خاص بات رحمان کا میوزک ہوتا ہے۔
اے آر رحمان کا صوفی انداز اور مزاج منفرد ہے
رحمان ۔۔۔ایوارڈز کی ایورسٹ
بالی ووڈ سے دنیا میں موسیقی کی دھڑکن بنے اے آر رحمان نے اپنی صلاحیتوں کے سبب ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔انہیں ملک اور دنیا میں بڑے بڑے ایوارڈز سے نوازا گیا ہے ۔ حقیقت تو یہی ہے کہ رحمان کی موسیقی کسی ایوارڈ کی محتاج نہیں ،موسیقی نے دل جیتے اور دلوں میں بس گئی ۔ ان کی دھنوں نے ایک نیا ذائقہ دیا، لوگوں نے محسوس کیا تھا کہ گھسی پٹی میوزک کے بعد ایک نیا مزاج اور انداز سامنے آیا ہے جو دل کو چھو رہا ہے۔ انہیں جتنے ایوارڈز ملے ہیں وہ شاید کسی بھی ہندوستانی موسیقار کو آج تک نہیں مل سکے۔ انہیں 10 مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے، ۴؍ بار نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ پدم شری سے نوازے جا چکے ہیں۔ انہیں بافٹا، گولڈن گلوب، سیٹیلائٹ اور کرٹکس چوائس ایوارڈز مل چکے ہیں۔ 2009 میں ان کو فلم ’ سلم ڈاگ‘ کے لیے بہترین موسیقی دینے پر اکیڈیمی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی موسیقار ہیں۔اے آر رحمان کو متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا جبکہ کئی ممالک کی یونیورسٹیز انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند بھی دے چکی ہیں۔پاکستان سمیت پوری دنیا میں مشہور بھارتی موسیقار اللہ رکھا رحمان بالمعروف اے آر رحمان نے 1500 سے زائد گیتوں کی موسیقی ترتیب دی، انہیں آسکر اور گریمی سمیت کئی ایوارڈ ز سے نوازا جاچکا ہے۔
کام عبادت ہے
بالی ووڈ کے گلوکار جاوید علی نے انکشاف کیا ہے کہ ‘کُن فیکون’ کی ریکارڈنگ سے پہلے معروف موسیقار اے آر رحمان نے وضو کرنے کا کہا تھا۔اے آر رحمان کی راک اسٹار کی کمپوزیشن ’کن فیکون‘ کو ان کی بہترین کمپوزیشن میں شمار کیا جاتا ہے ایک حالیہ انٹرویو میں گلوکار جاوید علی نے گانے کی ریکارڈنگ کے حوالے سے کھل کر بات کی اور اس گانے کی ریکارڈنگ کے تجربے کو شیئر کیا۔رنبیر کپور پر فلمایا گیا یہ قوالی ‘کُن فیکون’ ارشاد کامل نے لکھا تھا اور اس میں جاوید، رحمان، موہت چوہان اور نظامی برادران کی آواز تھی۔ جاوید علی نے کہا کہ میں نے اے آر رحمان سر کے کہنے پر پورے خلوص کے ساتھ وضو کیا پھر ریکارڈنگ شروع کی، ریکارڈنگ کے دوران پورے اسٹوڈیو میں اندھیرا تھا صرف موم بتی کی روشنی تھی اور اسٹوڈیو میں صرف تین لوگ تھے، میں، اے آر رحمان اور نغمہ نگار ارشاد کامل۔