امروہہ: طب یونانی اور مایہ ناز طبیب کی سرزمین

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 12-04-2024
امروہہ: طب یونانی اور مایہ ناز طبیب کی سرزمین
امروہہ: طب یونانی اور مایہ ناز طبیب کی سرزمین

 

 سراج نقوی

 امروہہ نے صرف علم و ادب کے میدان میں ہی گراں قدر شخصیات کو جنم نہیں دیا۔یہ شہر صرف شعراء و ادباء کا ہی مرکز نہیں رہا۔یہاں صرف فنونِ لطیفہ کے گوہرِ آبدار ہی پیدا نہیں ہوئے بلکہ دیگر شعبہ ہائے حیات میں بھی اس شہر کی گراں قدر خدمات رہی ہیں۔امروہہ نے کئی بڑے اور قومی و عالمی سطح کے سائینسداں دنیا کو دیے ہیں۔میڈیکل سائینس کے شعبے میں اس شہر کے لوگوں نے دنیا بھر میں نام روشن کیا ہے۔یہاں کے ڈاکٹروں،ویدھوں اور طب یونانی کے معالجوں یعنی حکیموں نے ملک بھر سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔یہی سبب ہے کہ ‘رموز االاطباء’کے مولف حکیم محمد فیروز الدین نے اس شہر کو طبیب خیز خطّہ بھی قرار دیا ہے۔

 طب یونانی کے شعبے میں اس شہر کی خدمات کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہاں چند اطباء نے ہی اپنی طبی مہارت ثابت نہیں کی بلکہ شہر میں کئی خانوادے طب یونانی سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ آج بھی ان خانوادوں کے کئی افراد طب یونانی کے پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں اورا یلو پیتھی کے عروج کے اس دور میں بھی اس قدیمی طریقہ علاج کو کامیابی کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ان خانوادوں میں محلہ لکڑا(دربارِ شاہ ولایت) کے خاندانِ عبدال محمد سے تعلق رکھنے والے حکیم سید امیر علی،حکیم سید مرتضیٰ، حکیم سید محمد ،حکیم میر محمد ،حکیم میر احمد عرف اچھو،حکیم سید طحہٰ،حکیم سید مہدی،حکیم مرتضیٰ علی وغیرہ جیسے نامور اطباء شامل ہیں ۔اس خاندان کے کئی افراد آج بھی طب یونانی سے وابستہ ہیں۔ان میں حکیم سید محمد اور حکیم سید حسین وغیرہ کے نام شامل ہیں۔اس خانوادے کے کئی اطباء ایسے ہیں جن کی صلاحیتوں کا اعتراف ان کی موت کو کافی عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی کیا جاتا ہے۔

ان ہی میں حکیم سید امیر علی اپنے وقت کے بہت مشہور حکیم تھے۔اس خاندان کے ایک بزرگ قمر رضا صاحب نے راقم الحروف کوبتایا کہ سید امیر علی سید قائم علی کے بیٹے تھے۔ امروہہ کے گورو کے مولف پنڈت بھون شرمانے اپنی تالیف میں ان کا نام حکیم سید میر علی لکھا ہے لیکن ولدیت قائم علی ہی تحریر کی ہے۔ بھون شرما نے انھیں حکیم غلام امامین کا شاگرد بھی لکھا ہے،لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ حکیم غلام امامین کا تعلق امروہہ کے کس محلے سے تھا۔االبتہ مصباح احمد صدیقی صاحب نے بتایا کہ غلام امامین کا تعلق محلہ جڑودیہ سے تھا۔ غلام امامین بھی اپنے دور کے بڑے حکیم تھے-ان کے خانوادے میں بھی کئی ناموراطباء ہوئے۔بھون شرما امیر علی یا میر علی کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں-

قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کے مشہور حکیم اجمل خاں (دلّی) ان ہی حکیم سید میر علی کے شاگرد تھے،جس کی تصدیق سید قیصر مبین نقوی ،پرنسپل آشرم پدھتی اسکول ،محلہ پچدرہ نے بھی اپنے مضامین میں کی ہے۔(ہندی سے ترجمہ) ‘شیعان امروہہ’ کے مولف مولانا شہوار حسین نے اپنی تالیف میں قائم علی کے بیٹے کے طور پر حکیم سید میرمحمد کا نام تحریر کیا ہے- انھیں حکیم غلام امام کا شاگرد بھی لکھا ہے۔لیکن سید قمر رضا اور پنڈت بھون شرما کے بیانات میں کافی یکسانیت ہے۔ اس لیے اسے ہی درست مانا جا نا چاہیے ۔اس لیے بھی یہ زیادہ مستند ہے کہ سید قمر رضا کا تعلق اسی خاندان سے ہے ۔ امروہہ کے گورو’ میں سید میر علی کی تاریخ وفات 1898دی گئی ہے۔

اسی خانوادے کے ایک نامور حکیم سید محمد کے بارے میں ‘تاریخ شیعانِ امروہہ’کے مولف مولانا شہوار حسین اپنی تالیف کے صفحہ192 پر رقم طراز ہیں-حکیم سید محمد حکیم سید مرتضیٰ نقوی کے فرزند محلہ لکڑا میں پیدا ہوئے۔ طب میں نہ صرف حذاقیت بلکہ مجتہدانہ صلاحیت رکھتے تھے۔بیرون امروہہ دور دور تک علاج کی شہرت تھی۔شمس آبادکے نوابین کے خاص معالج تھے۔اللہ رب العزت نے دست شفا عطا کیاتھا۔ روحانیت میں حد کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ آپ کے محیر العقول واقعات زباں زدِ خلائق ہیں۔مدرسہ سید المدارس امروہہ کے بانیوں میں تھے۔ دوران تعمیر مدرسہ زیادہ وقت اسکی نگرانی میں صرف کیا۔ آپ کے تینوں بیٹے حکیم میرمحمد،حکیم امیر احمد اور حکیم سید محمد طحہٰ مطب کرتے تھے۔حکیم سید محمد کا انتقال تقریباً1349ہجری 1930/عیسویں میں ہوا۔

سید قمر رضانے راقم کو حکیم سید محمد کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ آپ حکیم اجمل خاں کے ہم عصروں میں تھے،-امروہہ کے ایک مشہور طبیب حکیم اسلام الحق کے استاد بھی تھے۔قمر رضا صاحب کا بیان ہے کہ حکیم اسلام الحق(مرحوم) کے مطب میں سید محمد صاحب کی تصویر بھی لگی ہوئی تھی۔آپ کا انتقال شمس آباد میں ہوا اور وہیں دفن ہیں۔آپ کی روحانی عظمت کا اعتراف شمس آباد کے لوگوں نے اس طرح کیا کہ قمر رضا صاحب کے مطابق آج بھی آپ کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔

اسی خاندان کے حکیم محمد طہٰ اپنے وقت کے بڑے حکیم تھے۔ان کے بیٹے حکیم سید محمد مہدی نے آپ کے انتقال کے بعد حکمت کا یہ سلسلہ جاری رکھا، اب ان کے دو بیٹے سید محمد اور سید حسین بھی حکمت کے پیشے میں ہی ہیں۔اسی خاندان کے حکیم سید مرتضیٰ جو حکیم میر سید علی کے فرزند تھے،اپنے وقت کے نامور اور کامیاب اطباء میں شمار ہوتے تھے۔‘شیعان امروہہ’ کے مطابق آپ فرخ آباد کے راجا کے معالجِ خاص تھے۔اس خاندان کے ایک اور حکیم میر محمد بھی تھے اور یہ بھی فرخ آباد و شمس آباد کے راجہ و مہاراجہ کے حکیم رہے۔حکیم میر محمد کے فرزند سید مرتضیٰ علی بھی ماہر طبیب تھے۔آپ 29جون2009 میں اپنے انتقال سے پہلے تک حکمت کرتے رہے۔نہایت مخلص اور فعال شخصیت کے مالک تھے۔اسی خاندان کے ایک اور اہم طبیب کا ذکر بھی یہاں لازمی ہے۔ان کا نام میر احمد تھا،لیکن اپنی عرفیت اچھّو کے نام سے بھی مشہور تھے۔آپ حکیم سید محمد کے فرزند تھے۔آپ کے پاس بھی ددور دور سے مریض علاج کے لیے آتے اور شفایاب ہوکر جاتے تھے۔مرض کی تشخیص میں ملکہ حاصل تھا۔آپ کے علاج سے متعلق بہت سے واقعات آج بھی بہت مشہور ہیں۔یہ معاملہ اس خاندان کے کئی دیگر اطباء کا بھی ہے کہ جن کی تشخیص اور محیر العقول علاج کے واقعات آج بھی مشہور ہیں۔

awazurdu

امروہہ کے اس نامور خاندانِ اطباء کے علاوہ بھی شہر کے کئی دیگر محلّے اور خانوادے ایسے ہیں کہ جن میں ایک سے زیادہ طبیب ہوئے اور جنھوں نے امروہہ و امروہہ سے باہر بھی اپنی طبّی مہارت کا لوہا منوایا۔دانشمندان کے حکیم نورِ نذر کا خانوادہ بھی طب یونانی سے وابستہ رہا اور اس خاندان میں حکیم علی نذر،حکیم سید صفدر نذر،حکیم سید نورِ نذر کے علاوہ حکیم سید حیدر نذر،حکیم حسنین نذر،حکیم سیدجعفر نذر، حکیم سید اختر نذر وحکیم سیدمحمد نذر عرف حکیم بچّو جیسے حکیم ہوئے۔طب یونانی میں امروہہ کے سید بخش اللہ رضوی ساکن محلہ پیر زادگان1740-1810))کے خاندان نے بھی بہت نام پیدا کیا۔خود سید بخش اللہ رضوی نواب رامپور فیض اللہ خاں کے طببیب خاص تھے۔ آپ کے بیٹے سید حسن عسکری اپنے وقت کے بڑے حکیم مانے جاتے تھے۔‘تذکرہ بدر چشت’ میں آپ کا ذکر بہت اہمیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔حسن عسکری کے دو بیٹے سید اکبر علی اور سید نثار علی بھی حکیم تھے۔دونوں ہی کا شمار ماہر طبیبوں میں ہوتا تھا۔چھوٹے بیٹے کے بارے میں بھون شرمانے ‘امروہہ کے گورو’ میں لکھا ہے کہ بہت خود دار اور اپنے فن کے ماہر تھے۔انھیں اس وقت کی ریاست ٹونک (راجستھان) کے نواب کا طبیب ِخاص ہونے کا شرف حاصل تھا۔دیگر تذکروں میں بھی لکھا ہے کہ نواب ٹونک کی کسی بات پر ناراض ہوکرامروہہ چلے آئےلیکن جب نواب صاحب کی اہلیہ کی طببیعت خراب ہوئی اور نواب صاحب نے ان سے ٹونک آنے کے لیے اصرار کیا تو جاکر نواب کی اہلیہ کا علاج کیا۔ حکیم سید اکبر علی کے چار بیٹے ہوئے اور چاروں ہی بہترین طبیب تھے۔حکیم اکبر علی کے بڑے بیٹے حکیم احمدسعید نے طب سے متعلق کئی کتابیں بھی تصنیف کیں۔

بھون شرما کے مطابق،‘توصیف امروہہ’’میں حکیم احمد سعید کو ‘‘ارسطو’’کہا گیا ہے۔حکیم سید حسن عسکری کے چھوٹے بیٹے سید نثار علی کے بھی چار بیٹے ہوئے اور یہ چاروں بھی طب کے پیشے سے ہی وابستہ تھے۔نثار علی کے بڑے بیٹے حکیم علی حسن بھی 32سال تک ٹونک ریاست کے طبیب خاص رہے۔نثار علی کے تیسرے بیٹے حکیم ابن حسن 1847-1907))بھی ٹونک ریاست کے طبیب خاص رہے۔امروہہ کے گورو’ میں لکھا ہے کہ سابق وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کے والد آنجہانی پنڈت موتی لال نہرو بھی حکیم ابن حسن کی صلاحیت سے بہت متاثر تھے اور ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ضرورت پڑنے پرحکیم ابن حسن سے بھی مشورہ لیتے اور علاج کراتے تھے۔

بہرحال اس خاندان میں اور بھی کئی نامی گرامی حکیم پیدا ہوئے, ملک بھر میں امروہہ کا نام روشن کیا۔ شہر کا تیسرا بڑا اور طب یونانی سے وابستہ خانوادہ حکیم اسلام الحق کا ہے۔حالانکہ حکیم اسلام الحق اپنے خاندان کے ایسے آخری فر د تھے کہ جو طبیب تھے،لیکن ان کے اجداد میں کئی نسلوں تک طبابت کا سلسلہ جاری رہا۔اس خاندان کے پہلے حکیم مولوی نجیب اللہ تھے۔نجیب اللہ کے بیٹے حکیم محمد رحیم اللہ اپنے وقت کے بڑے اور کامیاب طبیب تھے۔آپ کے شاگردوں کا بھی ایک بڑا حلقہ تھا اور ان میں بھی کئی کامیاب طبیب ہوئے۔حکیم رحیم اللہ کے چار بیٹے حکیم محمد عبد السلام ،حکیم محمد عبد الحکیم،حکیم مولوی عبد القیوم اورحکیم عبد الصمد ہوئے ،اور سب ہی اس پیشے سے وابستہ تھے۔

حکیم عبد السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی طبی مہارت کا یہ حال تھاکہ بیحد پیچیدہ امراض کی بھی نہ صرف فوراً تشخیص کر لیتے تھے بلکہ نبض دیکھ کر مستقبل قریب میں ہونے والے امراض کے بارے میں بھی مریض کو خبردار کر دیتے تھے۔ماہر امراض قلب تھے اور بغیر فیس لیے علاج کرتے تھے۔‘امروہہ کے گورو’ میں،رموز اطباء’کے حوالے سے ان کا ذکر ہے۔حکیم عبد السلام کے تین بیٹے حکیم ضیاء الحق،حکیم ظہور الحق اور حکیم احسان الحق ہوئے۔یہ تینوں بھی کامیاب حکیم ہوئے۔ان میں سے ہی آخر الذکر حکیم احسان الحق کے نامور فرزند حکیم اسلام الحق ہوئے،جنھوں نے اپنی طبی مہارت کے سبب شہرت حاصل کی۔حکیم اسلام الحق بہت اچھے نبّاض بھی تھے۔

کہا جاتا ہے کہ دلیپ کمار،سائرہ بانو اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جے ایس ورما جیسے لوگوں کا بھی انھوں نے علاج کیا۔بھون شرما کے مطابق جسٹس ورما اپنی اہلیہ کے ساتھ حکیم اسلام الحق کودکھانے نئی دلّی سے امروہہ آئے تھے۔بہرحال حکیم اسلام الحق کی موت کے ساتھ ہی انکے گھرسے یہ پیشہ ختم ہو گیا۔حکیم مولوی نجیب اللہ کے تیسرے بیٹے حکیم عبد القیوم بھی اپنے وقت کے بڑے حکیم تھے۔آپ نے فنِ طب پر ایک کتاب ‘اسرار الطب’بھی لکھی۔حکیم عبد القیوم کے تین بیٹے اسرار الحق،محمد انوار الحق اور محمد ابرار الحق بھی ماہر طبیب ہوئے۔

طب کے پیشے سے وابستہ ایک اور اہم خاندان حکیم صیانت اللہ صدیقی کا بھی ہے۔اس خاندان کا تعلق محلہ صدو سے ہے۔خاندان میں پہلے طبیب حکیم علیم اللہ خاں تھے۔کافی نامور اور باصلاحیت طبیب تھے۔ان کے بیٹے حکیم کفایت اللہ بھی ایک ماہر طبیب تھے اور نواب رامپور سے انھیں ‘خان بہادر’ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔کفایت اللہ صاحب کا انتقال1854عیسویں میں ہوا۔آپ کے دو بیٹے ہوئے جن کے نام حکمت اللہ خاں اور رفعت اللہ خاں تھے۔رفعت اللہ کے بیٹے فرحت اللہ اور فرحت اللہ کے کے دو بیٹے حکیم سعادت اللہ و حکیم صیانت اللہ ہوئے۔یہ سب باصلاحیت اور مشہور اطباء میں شمار ہوتے تھے۔ان میں سعادت اللہ کے تین بیٹوں میں سے دو نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا۔فرحت اللہ کے دوسرے بیٹے حکیم صیانت اللہ نے کافی شہرت پائی۔طب کے موضوع پر ان کے مضامین ملک کے مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ہاکی کے بھی بہت عمدہ کھلاڑی تھے۔آپ کی موت کے بعد تین بیٹوں میں سے صرف حکیم شعیب اختر ہی اس پیشے سے وابستہ ہیں اور ایک کامیاب حکیم ہیں۔

 محلہ نیازیان میں شیخ عبد القادر کا خاندان بھی طب یونانی کے مشہور طبیبوں کا خاندان رہا ہے،اور آج بھی اس خاندان کے کئی طبیب اس پیشے سے وابستہ ہیں۔شیخ عبد القادر ایک کامیاب حکیم تھے اور ان کے تین بیٹوں میں سے ایک نیاز علی بھی بطور طبیب شہر میں مشہور تھے۔نیاز علی کے چار بیٹے الطاف احمد،سلام احمد،نور احمد و رحمان احمد سبھی حکیم تھے۔ان میں الطاف احمد کے بیٹے حکیم خلیل احمد بہت کامیاب حکیم ہوئے۔انھیں املی والے حکیم کے نام سے بہت شہرت ملی اور آج بھی ان کے خاندان کے کچھ افراد نے اپنے مطب پر املی والے حکیم کا بورڈ لگا رکھا ہے۔ خلیل احمد کے سات بیٹوں میں سے چار طب کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ان چاروں میں سے ایک مجیب احمد تھے جن کے بیٹے حکیم رئیس کا 2023میں ہی انتقال ہوا ہے۔حکیم رئیس نہ صرف ایک اچھے طبیب تھے بلکہ نہایت ملنسار انسان بھی تھے۔بہت سے غریب مریضوں سے فیس اور دوا کے پیسے نہیں لیتے تھے۔اس کے علاوہ اپنے ملنے والوں اور قریبی دوستوں کو بھی دوائیں تک مفت دیتے تھے۔راقم الحروف اکثر کبھی علاج کی غرض سے اور کبھی محض برائے ملاقات ان کے پاس جاتا رہتا تھا۔علاج کے لیے جب بھی گیا تو نہایت اصرار کے باوجود پیسے نہیں لیے۔بلکہ اس کے بر عکس چائے وغیرہ سے تواضع بھی کرتے تھے۔اس خاندان کے اور بھی بہت سے افراد طبیب ہیں ۔ان میں کچھ امروہہ میں ہی حکمت کر رہے ہیں جبکہ کئی ملک کے دیگر شہروں میں اس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں۔

نیازیان کے پاس ہی محلہ کٹکوئی میں بھی حکیم رشید احمد خاں اور ان کے خاندان کے کئی افراد شہر کے بڑے اطباء میں شمار ہوتے تھے اور ان میں سے کچھ نے ملکی سطح پر بھی نام کمایا۔خود حکیم رشید احمد خاں کو ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں برٹش حکومت نے1930میں ‘شفاء الملک’ کے خطاب سے نوازا تھا۔امروہہ کے اطباء سے متعلق کئی کتابوں کے علاوہ محمود احمد عباسی کی ‘تحقیق الانصاب’ میں بھی حکیم رشید احمد کا ذکر ہے۔1918میں آپ بمبئی چلے گئے اور وہاں طب کے شعبے میں اہم خدمات انجام دیں۔ان میں طبیہ کالج خصوصاً قابلِ ذکر ہے۔آپ کے چار بیٹے ہوئے اور یہ سب بھی اچھے حکیم تھے۔ان میں سے ایک حکیم آفتاب تھے جن کے بیٹے جاوید اختر بڑے ٹی وی اور فلم اداکار ہوئے۔ حکیم رشید خاں کے باقی چار بھائی بھی اچھے اطباء میں شمار ہوتے تھے۔حکیم عابد علی خاں کا تعلق بھی اسی محلے سے تھا۔انھیں بھی طب یونانی میں مہارت حاصل تھی۔

awazurdu

محلہ گھیر مناف میں حکیم مختار احمد صدیقی کے خاندان میں بھی کئی کامیاب حکیم ہوئے۔حکیم مختار احمد انیسویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئے۔ان کے بڑے بیٹے حکیم صدیق احمد صدیقی بھی کامیاب حکیم تھے۔ صدیق احمد کے دو بیٹے حکیم خورشید مراد اور حکیم شاہد اصغربھی ماہرطبیب ہوئے۔حکیم خوشید مراد نے نینی تال کے شیر وڈ اسکول میں پڑھنے کے بعد ایمس سے بی آئی ایم ایس کی تعلیم حاصل کی اور بریلی میں اپنے والد کے مطب کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔مغربی ممالک تک میں اپنے طب کا ڈنکا بجایا۔ان ممالک میں انھیں کئی مرتبہ علاج کے لیے بلایا گیا۔مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں بھی اسی مقصد کے تحت گئے۔

گھیر مناف کے ہی حکیم محمد اسحاق صدیقی،ان کے بیٹے حکیم عبد الرزاق صدیقی بھی نامور حکیم ہوئے۔اسی محلے کے حکیم جواد حسنین نے بھی طب میں کافی نام کمایا۔ان کے بیٹے حکیم امجاد بھی نامور حکیم ہوئے۔اب بھی اس خاندان میں حکیم اوصاف اور حکیم امام مہدی اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ حکیم ضیا الحسن کا تعلق بھی اسی محلے سے تھا۔ محلہ چلّہ کے مشہور عباسی خاندان میں بھی کئی قابلِ ذکر اطباء پیدا ہوئے۔ان میں حکیم محمد اسمٰعیل،حکیم محمد احمد اثرؔ،حکیم محبِ علی عباسی وغیرہ نے طب میں کافی نام کمایا۔حکیم حامد حسن رضوی اور ان کے تین بیٹے بھی ماہر طبیب ہوئے ان میں سے کچھ نے حیدر آباد میں طب کے جوہر دکھائے۔

محلہ پچدرہ کے حکیم مستحسن اپنے وقت کے بڑے اطباء میں شمار ہوتے تھے۔ادب،تاریخ اور فلسفے پر دسترس رکھتے تھے اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔محلہ پچدرہ میں ہی حکیم محمد حسنین بھی ہوئے۔ محلہ جڑودیہ میں بھی کئی اہم اطباء پیدا ہوئے۔ان میں حکیم سید صغیر حسن،حکیم سید ظفر حسن،حکیم سید علی،حکیم مرتضیٰ حسن،حکیم منور حسن،حکیم ولایت علی،حکیم امیر حسن وحکیم رضوان حسن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔محلہ گزری کے حکیم ابن حسن،حکیم ابولقاسم،حکیم اصطفیٰ حسن ،حکیم جواد حسین،،حکیم معصوم حسن وغیرہ اپنے اپنے دور کے کامیاب اطباء رہے۔محلہ صدّو کے حکیم صادق علی خاں،حکیم فیروز علی خاں،حکیم قوام الدین خاں،حکیم نیاز علی،حکیم ابو علی خاں وغیرہ نے بھی طب کے پیشے میں نام پیدا کیا۔فیروز علی خاں کو مولف ‘شیعان امروہہ’نے حکیمِ حاذق لکھا ہے اور ان کے تقوے،پرہیزگاری و غریب پروری کا بھی خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔طب کے پیشے سے وابستہ ایک اہم نام حکیم کلب علی کا بھی ہے۔آپ نہ صرف ایک کامیاب طبیب تھے بلکہ اچھے شاعر اور ادیب بھی تھے۔کافی وسیع حلقہ احباب تھا جس میں ہر مکتب فکر کے علماء،شعراٗ اور ادیب شامل تھے۔

چاہ ملّا امان کے حکیم اختر حسین صدیقی، ان کے والد حکیم اسرار الحسن،محلہ قریشی کے حکیم شہاب الدین علوی،بٹوال کے حکیم کرامت علی صدیقی وغیرہ سمیت امروہہ میں بے شمار طبیب پیدا ہوئے اور ان سب کا کسی ایک مضمون میں ذکر کرنا ممکن نہیں۔ان میں ایسے اطباء کی بھی بڑی تعداد ہے کہ جنھوں نے طب کے موضوع پر کتابیں لکھیں،کئی امراض سے متعلق نادر نسخے ایجاد کیے اور اپنی ان صفات کے سبب ملک و بیرونِ ملک امروہہ کا نام روشن کیا۔ان میں سے ممکن ہے کہ کئی اہم نام راقم کی کم علمی یا معلومات کی عدم دستیابی کے سبب رہ بھی گئے ہوں،لیکن یہ بہرحال حقیقت ہے کہ امروہہ نے طب کے شعبے میں بھی کئی دیگر شعبوں کی طرح اہم اور قومی سطح کی خدمات انجام دی ہیں جو آج بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔امروہہ میں طب کے پیشے میں کئی ہندو حضرات نے بھی نام پیداکیا۔ اسی طرح آیوروید کے طریقہ علاج میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اس چھوٹی سی بستی کے لوگوں نے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنے شاندار کارناموں سے امروہہ کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔