افغانستان جو کبھی بدھ مت کا مرکزتھا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
افغانستان جو کبھی بدھ مت کا مرکزتھا
افغانستان جو کبھی بدھ مت کا مرکزتھا

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

افغانستان، ان دنوں چرچامیں ہے۔ عالمی طاقتوں کی طالبان کے ہاتھوں شکست اور امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعدملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوششیں جاری ہیں۔ فی الحال حکمراں طالبان نے افغانستان کے لئے اسلامی نظام حکومت کو اپنانے کا اعلان کیاہے۔ ملک کی اکثریت چونکہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور عوامی روایات میں بھی اسلام کی شمولیت رہی ہے لہٰذا اس قسم کا اعلان کسی کے لئے حیرت انگیز نہیں۔ البتہ اگرتاریخ کے جھروکوں سے جھانکیں تو احساس ہوتا ہے کہ افغانستان کا ماضی اسلام سے قبل، بدھ ازم سے متعلق رہاہے۔آئیے اسی حوالے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

افغانستان کا جغرافیہ

 افغانستان،صدیوں سے عالمی طاقتوں کی گزرگاہ رہا ہے۔یہی سبب ہے کہ یہاں کی آبادی مخلوط نسلوں پرمشتمل ہے۔ جہاں ملک کے عوام کی اکثریت پختون ہے،وہیں ایرانی نسل کے ازبک، ترک نسل کے تاجک، چینی نسل کے ہزارہ بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ افغانستان، جٖغرافیائی لحاظ سے کئی ملکوں سے گھراہواہے مگراس کے پاس ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت ، پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس کا بیشترعلاقہ پہاڑی سلسلوں کے اوپریاان کے دامن میں آبادہے۔ یہاں چار دریا ہیں مگراس کے باجود پانی کی شدید قلت ہے اور زمین، خشک وبنجر ہے لہٰذابڑاحصہ قابل کاشت نہیں ہے۔

افغانستان کا مذہب

 افغانستان کی آبادی کا تقریباً سو فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں نوے فیصد سنی ہیں۔پورے ملک میں غیرمسلموں کی آبادی بہت معمولی ہے۔ اکا دکا لوگ سکھ اور ہندوہیں۔ بدھسٹ تو مشکل ہی سے یہاں مل پائیں مگریہ جان کر بہتوں کو حیرت ہوگی کہ ماضی میں یہ خطہ بدھ ازم کا مرکز تھااور اسلام سے قبل افغانستان کےعوام ،اسی مذہب کے پیروکار تھے۔کچھ لوگ قبائلی مذاہب کے بھی پیروکار تھے۔

افغانستان کی تاریخ

افغانستان کی تاریخ ہزاروں برسوں پر مشتمل ہے۔ آثارقدیمہ کی جوباقیات دریافت ہوئی ہیں ،ان سے پتہ چلتا ہے کہ پچاس ہزار سال پہلے بھی، یہاں انسانی آبادی موجود تھی اور یہاں بڑے پیمانے پر زراعت ہو اکرتی تھی۔تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2000 قبل مسیح میں آریاؤں نے اسے تخت و تاراج کیا،پھر ایرانیوں کا قبضہ ہوا،پھر سکندراعظم نے یہاں قبضہ جمایا۔ افغانستان کی سرحد چین سے ملتی ہے لہٰذا چینی دراندازوں کی بھی یہاں آمد ہوتی رہی ہے۔یہی سبب ہے کہ افغانستان کا ایک طبقہ منگول نسل سے تعلق رکھتاہے۔یہاں تک کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی منگولوں کی دراندازیوں اور چیرہ دستیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

بدھ مت کی سرزمین

پانچ سوسال قبل مسیح کے آس پاس افغانستان میں بدھ ازم کا رواج شروع ہوااور دھیرے دھیرے پوراملک گوتم بدھ کی تعلیمات کے زیراثرآگیا۔ پورے ملک میں بدھ وہار تعمیر ہوئے، ترک دنیا کرنے والوں کی تعدادمیں اضافہ ہوااور جگہ جگہ گوتم بدھ کی مورتیاں نصب کی گئیں۔ قدیم بودھ خانقاہوں میں ایک مشہورخانقاہ شہر بلخ اور موجودہ مزار شریف کے پاس واقع ہے۔

بعدکی صدیوں میں بدھ ازم کو اس خطے میں مزید فروغ حاصل ہوااور دوسری خانقاہیں بھی تعمیر ہوئیں۔ بلخ میں نو وہار خانقاہ بھی تعمیر ہوئی جسے بعد کے دور میں عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ کہاجاتا تھا کہ یہاں گوتم بدھ کے دانت تھے جن کی زیارت کے لئے دور دورسے زائرین آتے تھے۔ایسی ہی ایک خانقاہ موجودہ جلال آباد کے پاس تعمیر ہوئی۔جسے ناگر وہار کا نام دیاگیا۔

بامیان کی وادی میں بدھ مت

ہندوکش پہاڑوں کی وادئ بامیان میں بدھ ازم کی جڑیں بے حد گہری تھیں جہاں تیسری صدی عیسوی اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان گوتم بدھ کا ایک بڑامجسمہ بنایاگیا۔ اس کا مقصد گوتم بدھ کوایک مافوق الانسانی شخصیت ظاہر کرنا تھا۔۲۰۰۱ء میں اسی عظیم الجثّہ مجسمے کو طالبان نے منہدم کیاتھا،جس کی تاریخی حیثیت کے پیش نظردنیا نے،اس قدم کی مذمت کی تھی۔

اشوک اور بدھ مت

 تین سوسترہ قبل مسیح میں، ہندوستان کی موریہ سلطنت کا دائرہ افغانستان تک پہنچ چکا تھااور اسی حکومت کا راجہ تھا اشوک جس نے ۲۳۲ء تا ۲۷۳ء صدی قبل مسیح حکومت کی تھی۔ اشوک نے بدھ مت قبول کرلیا تھااوراس نظریےکا مبلغ ومعاون بھی بن گیا تھا۔ اس نے افغانستان تک ’’اشوک کے ستون‘‘ایستادہ کروائے جن پر بودھ مت کے اصول کندہ کرائے گئے تھے۔اشوک کے جانشینوں نے اس نظریے کی مزید اشاعت کی اور افغانستان سے کشمیرتک گوتم بدھ کے پیروکار پھیل گئے۔ کشمیر میں بھی اسلام کی اشاعت تک بدھ ازم کا ہی غلبہ تھا۔ علاوہ ازیں شیوازم کے ماننے والے بھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔

گندھاراکی تہذہب کا مرکزافغانستان اورموجودہ پاکستان کے کچھ علاقے تھے۔یہ تہذیب جہاں اپنے آرٹ اور سنگ تراشی کے نمونوں کے لئے جانی جاتی ہے،وہیں گوتم بدھ کی تعلیمات کو اپنانے کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے۔

افغانستان بدھ مت کا ایک عالمی مرکزرہا اور تقریباً ہزار سال تک یہاں سے دوسرے علاقوں میں بدھ کی تعلیمات عام ہوتی رہیں۔ سنٹرل ایشیاکے تمام ملکوں میں یہیں سے بدھ مت پہنچا۔ یہاں تک کہ ایک زمانے میں عرب ملکوں میں بھی بدھ مت کے پیروکارپائے جاتے تھے جنھیں ان کے گیروے لباس کے سبب ’’حمرا‘‘ کہاجاتا تھا،یعنی سرخ لباس پہننے والا۔

طلوع اسلام

تاریخی شواہد کے مطابق642ء میں مسلمانوں نے افغانستان کے علاقے کو فتح کیا مگرانھوں نے حکومت اپنے ہاتھوں میں نہیں لی بلکہ مقامی لوگوں کوہی حکمراں بنایا۔ تب سے اسلام کی اشاعت میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے ہی مختلف طبقات حکومت کرتے رہے ہیں۔ایک زمانے میں افغانستان اور ہندوستان، ایک ہی حکومت کے دائرے میں تھے اور دہلی سے یہاں کی حکومت چلتی تھی۔