افغانستان:ایک جرات مندشاعرہ کی مزارپرکیوں آتے ہیں لوگ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-09-2021
افغانستان:ایک جرات مندشاعرہ کی مزارپرکیوں آتے ہیں لوگ؟
افغانستان:ایک جرات مندشاعرہ کی مزارپرکیوں آتے ہیں لوگ؟

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

طالبان کے زیر تسلط افغانستان میں،لڑکیوں کی تعلیم،خواتین کے پردے اور ان کے کام کرنے کا حق زیربحث ہے۔ حالانکہ لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں مگرپھر بھی دنیا کو اندیشہ ہےکہ طالبان خواتین کو گھروں تک محدود کردیں گے۔ یہی سبب ہے کہ کچھ خواتین سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ حالانکہ افغانستان کے سنہرے دور میں بھی خواتین کی تعلیم پرپابندی نہیں تھی بلکہ اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔

افغانستان کے ضلع بلخ میں ایک شاعرہ رابعہ بلخی کی قبرآج بھی خواتین کوجرات وبیباکی کا پیغام دے رہی ہے۔ رابعہ کو آٹھ سوسال قبل بھی ایسی تعلیم دی گئی تھی کہ اس نے شاعرہ کی حیثیت سے ایسی پہچان بنائی جو آج تک محونہیں ہوئی۔افغانستان میں آج بھی لوگ رابعہ کوپسند کرتے ہیں۔ ہسپتالوں اور اسکولوں کے نام ،اس نام پر ہیں اوربچیوں کے نام اس کے نام پررکھے جاتے ہیں۔ کابل میں ایک یونیورسٹی بھی رابعہ کے نام منسوب ہے۔۔

رابعہ کورابعہ خضداری بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق بلخ کے خصدار علاقے سے تھا۔ آج اس علاقے کو اگر دنیا میں جاناجاتا ہے تو رابعہ کے حوالے سے۔1990 کے آس پاس خضدار ٹاؤن کمیٹی نے زندہ پیر روڈ کا نام بدل کر رابعہ خضداری روڈ رکھ دیا تھا۔یہ روڈ کم وبیش تین کلومیٹرطویل ہے۔

رابعہ کا زمانہ

رابعہ کو جرات وبیباکی کی مثال کیوں ماناجاتاہے؟ اس سے جڑی ہوئی ایک کہانی ہے جو کسی بالی وڈ فلم کی کہانی جیسی ہے۔ رابعہ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو عرب سے بلخ ہجرت کرکے آیاتھااور یہاں اسے حکومت حاصل ہوگئی تھی۔  رابعہ کی تاریخ پیدائش کے تعلق سے تاریخ خاموش ہے۔ البتہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ 940 کے آس پاس وہ شہر بلخ میں ایک عرب خاندان میں پیدا ہوئی تھی۔

خاندانی پس منظر

والد کعب بلخ کے امیر تھے لہٰذا ایک پرتعیش زندگی کے تمام سازوسامان مہیاتھے۔تعلیم وتربیت بھی بہتر طریقے سے ہوئی تھی جس نے رابعہ کوایک اعلیٰ تخلیق کار بنادیا تھا۔ادبی تخلیقات آہستہ آہستہ محلوں کے بام ودر سے باہرنکل کر کوچہ وبازارتک پھیل گئی تھیں۔ ادب نوازعوام ہی نہیں بلکہ ہم عصرسامانی سلطنت کے شاہی شاعر رودکی بھی رابعہ کی شاعرانہ صلاحیت، زبان پر قدرت اور فصاحت وبلاغت سے بہت متاثر تھے۔دیگرشعرابھی اس کے حسنِ تکلم کے ساتھ ساتھ اس کے حسن تبسم کے شکار تھے مگررابعہ کا دل ایک ترک غلام کے لئے دھڑکتاتھا۔

باپ کی وصیت

امیر کعب نے ضعیفی اور مرض الموت کے دوران اپنے بیٹے اور مستقبل کے وارث حارث کو وصیت کی تھی کہ وہ اپنی بہن کا خیال رکھے گااور اس کی شادی اعلیٰ حسب ونسب والے شخص سے کرائے گا۔حارث تخت نشین ہوا توخوشی میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ اس دوران جب دعوت کا دور جاری تھاتورابعہ نے زنان خانے سے ایک ساقی کو دیکھا جو ایک ترکی غلام تھااور نام بکتاش تھا۔ اس کی مردانہ وجاہت نے رابعہ کومتاثر کیا۔

وصال یار

بکتاش تک رابعہ کا پیغام پہنچانے کا کام اس کی خادمہ نے کیا۔ان کے درمیان نہ جانے کتنے محبت ناموں کا تبادلہ ہواپھر کسی سبزہ زار میں ان کی ملاقات بھی اس طرح ہوئی کہ دونوں ایک دوسرے سے دورکھڑے رہے۔پاکدامن رابعہ نے اپنے محبوب کو دامن بوسی کی بھی اجازت نہیں دی۔ پہلے محبت اور پھروصال محبوب نے رابعہ کی شاعری کو محبت، خلش، درداور کسک سے بھردیا۔ اس کی غزالی آنکھوں کی نمی،اس کے اشعار میں بھی محسوس ہونے لگی۔

رازکاافشا

محبت کی زخم خوردہ رابعہ ایک دن باغیچے میں اداس وغمگین ٹہل رہی تھی اور بکتاش کی یاد میں اشعار گنگنارہی تھی کہ اس کے بھائی حارث نے دیکھ لیا۔ وہ شہر کی محفلوں میں شریک ہواتووہاں بھی اس کی بہن کے ہی عاشقانہ اور دردانگیزاشعار گائے جارہے تھے۔ اس نے حقیقت حال کی تحقیق کی تواسے رابعہ اور بکتاش کی پریم کہانی کا پتہ چلا۔ اس کہانی نے حارث کو آگ بگولہ کردیا اور اس نے رابعہ وبکتاش کی گرفتاری کا حکم دیدیا۔ دونوں قیدخانوں میں ڈال دیئے گئےمگریہیں پراس کی آتش غضب سرد نہیں ہوئی۔ رابعہ جن ہاتھوں سے اشعار رقم کرتی تھی،انھیں بھی کاٹ دینے کا حکم دیا۔

آخری نظمیں

رابعہ نے دم توڑنے ہوئے دیواروں پر اپنی آخری نظمیں اپنے خون سے لکھیں۔ رابعہ کی کہانی اور اس کی شاعری آج آٹھ صدی بعد بھی زندہ ہیں۔ دونوں نے آنے والی نسلوں کو متاثرکیا ہے۔ فارسی زبان جاننے والےآج بھی رابعہ کی شاعری پڑھتےسنتے اور گنگناتے ہیں۔ فارسی زبان میں اس کی کہانی پر فلم بھی بن چکی ہے اور بلخ میں آج بھی لوگ رابعہ کی قبرپر حاضری دینے آتے ہیں۔

شاعری

رابعہ کواگرچہ فارسی شاعری کی خاتون اول سمجھاجاتاہے مگروہ اس کے علاوہ بھی کئی فنون میں مہارت رکھتی تھی جن میں مصوری، تلوار بازی اور گھڑ سواری بھی شامل ہیں۔نمونہ کلام کے طور پر ایک شعرملاحظہ ہو:

عشــق او باز اندر آوردم به بند

کـــوشش بسيار نامد سودمند

(اس کے عشق کو اندرقیدکرنے کی بہت کوشش کی مگرکامیاب نہیں ہوئی)