بشیر بدر سے ایک تازہ ملاقات

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 21-09-2025
بشیر بدر سے ایک تازہ ملاقات
بشیر بدر سے ایک تازہ ملاقات

 



معصوم مرادآبادی

کسی نے درست ہی کہا تھا کہ لوگوں کی یادداشتکمزور ہوتی ہے۔ اتنی کمزور کہ وہ کل کی بات بھی یاد نہیں رکھتے۔اب یہی دیکھئے نا کہ اپنے عہد کے سب سے مقبول شاعربشیر بدر کو خود ان کے چاہنے والوں نے ہی فراموش کردیا ہے۔بہت سوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ بشیربدر زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ جی ہاں میں بات کررہا ہوں مشاعروں کے اسی مقبول وممتاز شاعر بشیر بدر کی جنھیں سننے کے لیے لوگ رات کے آخری پہر تک جمے رہتے تھے اور اسی وقت اٹھتے تھے جب بشیر بدر اپنا کلام سنا چکے ہوتے تھے۔ آج کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ بشیربدر کہاں اور کس حال میں ہیں۔

آپ کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ بشیربدر ابھی بقید حیات ہیں اور بھوپال میں بسترعلالت پر ہیں۔ گزشتہ ہفتہ جب میں بھوپال گیا تو میرے پروگرام میں ان سے ملنا بھی شامل تھا۔ حالانکہ ان سے ملنا آسان نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی یادداشت کھوچکے ہیں اور ڈیمنشیا کے مرض کی وجہ سے مسلسل صاحب فراش ہیں۔کبھی کبھی مسکراتے بھی ہیں اور اگر کوئی ان کے سامنے ان کا کوئی شعر دوہرائے تو اس پرخفیف سا ردعمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔یہ وہی شخص ہے جس نے برسہابرس اردو شاعری کے شوقینوں کو ضیافت طبع کا سامان فراہم کیا۔ تحت اور ترنم سے گھنٹوں اپنے اشعارسناکر اپنے چاہنے والوں کا دل جیتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بشیربدر کے سیکڑوں اشعار لوگوں کو منہ زبانی یادہیں اور انھیں مختلف مواقع پر دوہرایا جاتا ہے۔ایسے لافانی شعر کہنے والا شاعر آج جب بستر علالت پر ہے تو اس کی خبرگیری کرنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ آج وہ اپنے مداحوں کی نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں۔میں ان کے ایسے اشعار نقل کرنا چاہوں گا جو آج بھی زبان زد خاص وعام ہیں۔

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

 

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں اک گھر بنانے میں

تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

 

دشمنی جم کرکرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہوجائیں تو شرمندہ نہ ہوں

 

جس دن سے چلاہوں میری منزل پرنظر ہے

آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

یہ اور ان جیسے سیکڑوں شعر ایسے ہیں جوسکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن بھوپال میں ان کے دولت کدے پر حاضری کے دورا ن سب سے پہلے جس شعر نے ہمارا استقبال کیا، وہ یہ تھا

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے

یہ شعردراصل ان کی موجودہ کیفیت کا آئینہ دار ہی نہیں بلکہ حقیقت کے سب سے زیادہ قریب بھی ہے، جو ان کے دولت خانے کے داخلی دروازے پر آویزاں ہے۔ ہم ان کیگھر کے اندر داخل ہوئے تو وہاں بشیربدر کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر راحت بدر ہماری منتظر تھیں جو شدید بیماری اور معذوری میں ایک مشرقی خاتون کی طرح ہمہ وقت بشیر بدرکی خدمت میں مصروف ہیں۔وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر بشیربدر کی بیماری کا سلسلہ اب سے کوئی بارہ برس پہلے اس وقت شروع ہوا تھا جب وہ مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی کے چیئرمین تھے۔ ڈیمنشیا کی شروعات اس طرح ہوئی کہ وہ اپنے ہی شعروں کو بھولنے لگے۔ ڈاکٹر نے اسی وقت انھیں بتادیا تھا کہ آنے والے وقت میں انھیں اس بیماری کے تعلق سے کس قسم کی پریشانیاں لاحق ہوں گی۔بیماری بڑھتی رہی اور اس کا کوئی علاج ممکن نہیں ہوسکا۔ شاید ڈیمنشیا کا کوئی علاج ممکن بھی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا مریض اپنے ماضی کی تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمدمجیب بھی اسی مرض کا شکار ہوئے تھے۔ وہ جب جامعہ میں تاریخ کے پروفیسر تھے تو ایک دن اپنے طلبہ کے ساتھ قطب مینار کی سیر کرنے گئے تھے۔وہاں طلبہ کو قطب مینار کی تاریخ بتاتے بتاتے ان پر اس بیماری کا اچانک حملہ ہوا اور سب کچھ بھول گئے۔ یہاں تک کہ بعد کو انھیں اے بی سی ڈی بھی دوبارہ یاد کرنی پڑی۔

بشیربدر کی اہلیہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہم بشیر بد ر کے کمرے میں داخل ہوئے جہاں وہ بے خبر ی کی حالت میں تھے۔ لائٹ جلائی گئی اور ہم نے بشیربدر کی ایک جھلک دیکھی۔ ان کے کمرے کا جائزہ لیا جہاں ان کی ایک پرانی تصویر آویزاں تھی جو ان کے اچھے دنوں کی گواہی دے رہی تھی۔بعد کو ہم ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گئے۔کچھ دیر بعد ان کے کھانسنے کی آواز آئی، جس میں وہی گھن گرج محسوس ہوئی جو شعر پڑھتے وقت ہوتی تھی۔ وہ مسلسل غشی کی حالت میں ہیں۔ ہم شدید خواہش کے باوجود ان سے کوئی مکالمہ قائم نہیں کرسکے۔ جس شخص کو ہم نے اب سے چند دہائیوں قبل تک شعر وادب کی دنیا پر حکمرانی کرتے ہوئے دیکھا تھا، آ ج وہ بے خبری کے عالم میں ہے۔ ان کی عمر ۰۹برس ہوچکی ہے۔

پچھلے دنوں بھوپال کی مشہور ومعروف اسکالر ڈاکٹر رضیہ حامد نے اپنے سہ ماہی رسالہ ”فکر وآگہی“ کا نہایت ضخیم’بشیربدر‘ نمبر شائع کیا تو اس خصوصی نمبر کے ساتھ بشیر بدر کی ایک تصویر بھی اتاری گئی۔ تقریباً سات سو صفحات کے اس خصوصی شمارے میں بشیربدر کی ادبی زندگی کے تمام پہلوؤں کا بڑی چابک دستی کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے۔ اس خصوصی شمارے میں ڈاکٹر بشیر بدر سے خاکسار کا لیا ہوا تفصیلی انٹرویو بھی شامل ہے، جو میں نے 1987میں ان سے دہلی سے متصل نوئیڈا میں لیا تھا۔ اس انٹرویو کے مشمولات پر کافی گرما گرم بحث بھی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ مشفق خواجہ نے اس پر کالم بھی لکھا تھا۔اس انٹرویو میں ڈاکٹر بشیربدر نے کہا تھا کہ”شاعری میں صرف میروغالب ہی ان کے حریف ہیں، باقی کسی سے ان کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔“