نئی دہلی:جب میڈیا کی توجہ ہمیشہ مشہور شخصیات اور سیاستدانوں پر مرکوز رہتی ہے، تو وہ اصل طاقت نظر انداز ہو جاتی ہے جو دراصل بھارت کی ترقی کو آگے بڑھا رہی ہے—یعنی وہ بے نام ہیرو جنہوں نے خاموشی سے، بنا کسی شہرت یا تعریف کے، معاشرے میں مثبت تبدیلی پیدا کی ہے۔
قومی دفاع سے لے کر دیہی تعلیم، کھیل، سائنس، اور سول سروس تک—اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی افراد ہیں جنہوں نے اپنے حوصلے، ہمدردی، اور یقین کے ذریعے غیر معمولی تبدیلیوں کی راہیں ہموار کی ہیں۔یہاں ہم آپ کو ایسے ہی 10 باہمت افراد سے متعارف کرا رہے ہیں جن کی جدوجہد اور خدمات واقعی سننے اور سراہنے کے لائق ہیں۔
سب سے پہلے ہم اتر پردیش کی ایسی شخصیات کا تعارف پیش کریں گے،جہاں تہذیب، تاریخ اور ثقافت کی خوشبو رچی بسی ہے، وہیں یہ خطہ ایسی ہستیوں کا بھی مسکن ہے جنہوں نے اپنے کردار، محنت، قربانی اور وژن سے سماج میں تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ ان کے سفر عام نہیں، غیر معمولی ہیں۔ ان کی کہانیاں حوصلہ دیتی ہیں، راہیں دکھاتی ہیں اور نسلِ نو کو خواب دیکھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔
ببّن میاں: گوشالا کے خادم، امن کے پیامبر
زبیر الرحمٰن عرف ببّن میاں اتر پردیش کے ضلع بلندشہر میں ایک گوشالہ چلاتے ہیں۔ان کی والدہ مرحومہ گائے سے بہت محبت کرتی تھیں۔ وہ انہیں پالتی تھیں اور بہت خیال رکھتی تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد میں نے ان کی یاد میں یہ گوشالہ قائم کی اور اس کا نام ‘مدھو سدن گوشالہ’ رکھا۔"وہ جانوروں سے محبت کو عبادت سمجھتے ہیں، اور گایوں کی خدمت کے لیے سادہ لباس، سادہ طرزِ زندگی اور جذبہِ خلوص کے ساتھ جٹے ہیں۔ان کی زندگی ہندوستانی تہذیب کے اس پہلو کی نمائندگی کرتی ہے جہاں انسان اور حیوان کے درمیان محبت، تحفظ اور ہمدردی کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ ان کا خاندان صرف گزشتہ دو دہائیوں سے گائے کی خدمت نہیں کر رہا ہے— بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا خاندان پچھلے تقریباً پچاس برسوں سے اس کام میں مصروف ہے۔ تاہم ان کی والدہ حامد النساء بیگم کا جذبہ اور لگن ہی اصل وجہ بنی کہ وہ خود ایک گوپالک بنے۔
خوشبو مرزا: چاند تک رسائی کا خواب
خوشبو مرزا، اتر پردیش کے ضلع امروہہ سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت اور باصلاحیت خاتون ہیں جنہوں نے نہ صرف تعلیمی میدان میں نمایاں کارنامے انجام دیے بلکہ بھارت کے خلائی مشنوں میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ بھارتی خلائی تحقیقی ادارے اسرو(ISRO) کی سائنسدان ہیں اور چندریان-1 اور چندریان-2 جیسے اہم منصوبوں پر کام کر چکی ہیں۔خوشبو کا سفر آسان نہ تھا۔ ان کے والد سکندر مرزا کا انتقال اس وقت ہو گیا جب وہ صرف سات برس کی تھیں۔ ان کی والدہ فرحت مرزا نے بیوگی کی حالت میں تین بچوں کی تنہا پرورش کی۔ انہوں نے ایک پیٹرول پمپ چلایا، سماجی تنقید سہی، مگر کبھی بھی اپنی بیٹی کی تعلیم میں رکاوٹ نہ آنے دی۔ خوشبو نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) سے الیکٹرانکس انجینئرنگ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔تعلیم کے ساتھ ساتھ خوشبو کھیلوں اور طلبہ سیاست میں بھی سرگرم رہیں۔ گریجویشن کے بعد انہیں ایڈوب(Adobe) کمپنی میں ملازمت کی پیشکش ہوئی، مگر انہوں نے اسرو کو ترجیح دی۔ چندریان-1 مشن کے دوران وہ چیک آؤٹ ٹیم کی سربراہ تھیں اور اس وقت ٹیم کی سب سے کم عمر رکن بھی۔خوشبو ایک عملی مسلمان ہیں، روزے رکھتی ہیں، نماز پڑھتی ہیں اور مذہبی روایات کی پابندی کرتی ہیں۔ ان کی والدہ نے انہیں آزادی سے جینے دیا، حتیٰ کہ جینز پہننے کی بھی اجازت دی — تاکہ معاشرتی دباؤ ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔آج خوشبو مرزا لاکھوں لڑکیوں کے لیے ایک مثال ہیں، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ حوصلہ اور ماں کی حمایت سے امروہہ جیسے چھوٹے شہر کی ایک لڑکی بھی ستاروں تک پہنچ سکتی ہے۔
انجم آرا: انصاف اور ہمدردی کا چہرہ
انجم آرا، اعظم گڑھ کے ایک معمولی سے گاؤں سے نکل کر آئی پی ایس بنیں، تو یہ محض ایک نوکری کا حصول نہیں تھا بلکہ ایک عزم کا عملی مظاہرہ تھا۔ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے پولیس سروس کو اپنایا کیونکہ وہ قانون کے نفاذ کو انسانی ہمدردی سے جوڑنا چاہتی تھیں۔ شملہ، اونا، کانگڑا جیسے مقامات پر تعیناتی کے دوران انہوں نے نہ صرف قانون نافذ کیا بلکہ مظلوموں کو انصاف دلانے میں بھی پیش پیش رہیں۔ان کی ذاتی زندگی بھی سماجی شعور سے لبریز ہے۔ انہوں نے ایک شہید سپاہی کی بیٹی کی تعلیمی کفالت کی ذمہ داری خود لی، جو ان کی انسان دوستی کی عملی مثال ہے۔ انجم آرا اور ان کے شوہر یونس خان، جو خود ایک آئی اے ایس افسر ہیں، ملک کے نوجوانوں کے لیے ایک متوازن، ذمہ دار اور مقصد مند زندگی کی علامت ہیں۔
ممتاز خان: ہاکی کے میدان سے عالمی شناخت تک
لکھنؤ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والی ممتاز خان کی زندگی آسان نہ تھی۔ سبزی بیچنے والے والد، کچی بستی، اور محدود وسائل۔ مگر ان کے اندر ایک چمک تھی جسے کوچ نیلم صدیقی نے پہچانا۔ نیلم نے نہ صرف ان کا انتخاب کیا بلکہ ان کے والدین کو اس کھیل کے امکانات پر قائل بھی کیا۔ممتاز کی محنت نے ان کا نام عالمی سطح پر روشناس کرایا۔ وہ یوتھ اولمپکس میں بھارت کی نمائندگی کرتے ہوئے 10 گول کر کے ٹیم کو سلور میڈل دلوانے والی اہم کھلاڑی بنیں۔ ان کے کھیل میں رفتار، فیصلہ سازی اور تکنیک کا حسین امتزاج ہے۔ آج وہ نہ صرف ایک کھلاڑی بلکہ ہر اس لڑکی کے لیے امید کی کرن ہیں جو کم وسائل کے باوجود بڑے خواب دیکھتی ہے۔
کیپٹن ساریہ عباسی: جنگی محاذ پر عورت کا وقار
کیپٹن ساریہ عباسی کا تعلق گورکھپور کے ایک تعلیم دوست خاندان سے ہے۔ انجینئرنگ کے بعد انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا اور لداخ، اروناچل جیسے سرد اور دشوار گزار علاقوں میں خدمات انجام دیں۔ ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ وہ "ڈرون کلر" L-70 گن کو آپریٹ کرتی ہیں — جو جدید جنگی حکمت عملی کا ایک اہم جزو ہے۔فوج میں ان کی موجودگی نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پورے خطے کے لیے فخر کا باعث ہے۔ ان کی قیادت میں کام کرنے والی ٹیمیں نظم و ضبط، اخلاقی قوت اور تکنیکی مہارت میں مثالی ہیں۔ وہ نئی نسل کی لڑکیوں کے لیے یہ پیغام ہیں کہ جنگ صرف بندوق سے نہیں، حوصلے سے بھی لڑی جاتی ہے
۔روبینہ راشد علی: فن کی خدمت، فنکاروں کی آواز
علی گڑھ کی روبینہ راشد علی نے مغل دور کے مشہور اپلیکے (پھول پتی) کام کو ایک نئی شناخت دی۔ ایک ایسے وقت میں جب یہ فن مٹ رہا تھا اور اس کے کاریگر غربت میں گم ہو رہے تھے، روبینہ نے اسے نہ صرف زندہ کیا بلکہ بیچولیوں کے استحصال کے خلاف آواز بلند کی۔انہوں نے خود خواتین کو تربیت دی، انہیں خود کفیل بنایا، اور یہ ثابت کیا کہ ایک فنکار نہ صرف اپنے فن سے بلکہ سماجی بیداری سے بھی انقلاب لا سکتا ہے۔ روبینہ کا مشن ہے کہ ہر کاریگر کو اس کی محنت کا اصل صلہ ملے — عزت اور معاشی خودمختاری۔
ڈاکٹر فرح عثمانی: عالمی صحت کی معمار
علی گڑھ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فرح عثمانی نے طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لندن سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا۔ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور اقوام متحدہ میں خدمات انجام دے چکی ہیں۔ ان کا کام پالیسی میکنگ، خواتین و بچوں کی صحت اور ماحولیات سے جڑا ہے۔انہوں نے بنگلہ دیش میں یو این مشن کی قیادت کی، اور کئی بین الاقوامی معاہدوں میں بھارت کی نمائندگی کی۔ ان کی موجودگی عالمی پلیٹ فارمز پر بھارت کی ساکھ کو تقویت دیتی ہے۔
ڈاکٹر فیاض احمد فیضی: قلم، طب اور قیادت
مہاراج گنج کے ڈاکٹر فیاض فیضی محض ایک کامیاب آئوش معالج نہیں، بلکہ ایک حساس مفکر، محقق اور سماجی اصلاح کار ہیں۔ ان کی تحریریں، کالم، اور پالیسی نوٹس مسلم پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود پر مرکوز ہیں۔ انہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے خود اپنے خطابات میں خراج تحسین پیش کیا۔ڈاکٹر فیضی نے ہزاروں طلبہ کو یونانی طب کی تعلیم سے جوڑا، درجنوں تحقیقی مضامین لکھے، اور اپنی کتابوں کے ذریعے علمی سرمایہ میں اضافہ کیا۔ ان کی زندگی تحقیق اور خدمت کا حسین امتزاج ہے۔
محمد لقمان علی: تعلیم و کھیل کا ترجمان
امروہہ کے محمد لقمان علی نے بچپن میں ہی غربت اور عدم مساوات کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہوں نے کشتی میں بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔وہ ایک ایسے نوجوان کی علامت ہیں جو اپنی ذہانت اور جسمانی مہارت، دونوں سے سماج میں مقام حاصل کرتا ہے۔ آج وہ ملک بھر میں سماجی بیداری، کھیلوں کے فروغ اور اقلیتی طلبہ کی تعلیمی رہنمائی کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ظہیر فاروقی: دیہی تعلیم کے سرپرست
اتر پردیش کے چھوٹے سے قصبے پورقاضی میں، ظہیر فاروقی ایک انقلابی قیادت کی علامت بن کر ابھرے ہیں۔ نگر پنچایت کے چیئرمین اور ایک سرگرم کسان رہنما کی حیثیت سے انہوں نے تعلیم کو اپنی ترقیاتی حکمت عملی کا مرکز بنایا۔ انہوں نے قصبے کے پہلے انٹرمیڈیٹ کالج کے لیے 1.5 کروڑ روپے مالیت کی زمین عطیہ کی، جو علاقے کی تعلیمی محرومی کو ختم کرنے کی جانب ایک انقلابی قدم تھا۔
ان کی کاوشوں نے صرف پرائمری اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر نہیں بنایا ۔ جہاں اب جدید فرنیچر اور سمارٹ کلاس رومز دستیاب ہیں — بلکہ ان اسکولوں کو مرکزی حکومت کی پی ایم شری اسکیم میں بھی شامل کرایا۔ ان کوششوں کی بدولت ان طلبہ کو اب دور دراز کے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑتا، جنہیں پہلے ثانوی تعلیم کے لیے سفر کرنا پڑتا تھا۔ فاروقی نے عملاً نیلسن منڈیلا کے اس قول کو سچ کر دکھایا کہ "تعلیم دنیا کو بدلنے کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔مگر ان کی خدمات صرف تعلیم تک محدود نہیں۔ انہوں نے دیہی نظم و نسق کو ایک نئی جہت دی ہے— دو منزلہ سرکاری گاؤشالہ، جدید سی سی ٹی وی سیکیورٹی نیٹ ورک، اور دیگر کئی عملی اقدامات کے ذریعے۔ انہوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا: ایک مسلمان رہنما کے طور پر گائے کی فلاح، مسلم خواتین کے لیے سرکاری فنڈ سے جم قائم کرنا، اور سولی والا باغ میں ہر سال ترنگا یاترا کے ذریعے تاریخی شعور کو زندہ کرنا، ان کے انقلابی وژن کا حصہ ہے۔انہوں نے عوام کو سرکاری اسکیموں سے جوڑنے اور شفاف طرزِ حکمرانی کو یقینی بنانے میں جو کردار ادا کیا، اس سے پورقاضی ایک ماڈل دیہی انتظامیہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ان کی قیادت ثابت کرتی ہے کہ عوامی فلاح پر مبنی اور گہرائی سے جڑی ہوئی حکمرانی کس طرح اتحاد، سلامتی، اور خوداختیاری کو فروغ دے سکتی ہے