قصہ گوئی کا فن روحانی سکون عطا کرتا ہے۔ ساحل آغا

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-11-2025
 قصہ گوئی  کا فن روحانی سکون عطا کرتا ہے۔ ساحل آغا
قصہ گوئی کا فن روحانی سکون عطا کرتا ہے۔ ساحل آغا

 



منصور الدین فریدی /نئی دہلی 

 سید ساحل آغا کو داستان گوئی میں دلچسپی ان کی طالب علمی کے دور میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پیدا ہوئی۔وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس فن کی یہ بات پسند ہے کہ اس کا تعلق صوفیوں اور خانقاہوں سے ہے۔ یہ امن اور محبت کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ یہ جذبہ حب الوطنی پیدا کرتا ہے۔ یہ اتحاد اور مذہبی ہم آہنگی کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب کی پرورش کرتا ہے۔آج وہ ہندوستان اور بیرون ملک داستان  گوئی کے پروگرام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ خوش بھی ہیں اور مطمئن بھی ہیں کیونکہ یہ فن روحانی سکون عطا کرتا ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ داستان گوئی کا تعلق صوفیوں اور خانقاہوں سے ہے،یہ امن و محبت کا پیغام کا ذریعہ ہے ، جو حب الوطنی ، اتحاد ، مذہبی ہم آہنگی کا جذ بے  پیدا کرتی ہے ،گنگا جمنی تہذیب کو پروان دیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ میں نے  داستان گوئی میں قسمت آزمائی ۔ سید ساحل آغا سال1982 میں پیدا ہوئے،انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے گریجویشن کیا اورShri Ram Centre Of Performing Art دہلی سے اداکاری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا ۔ وہ اردو کے سینئر صحافی سید منصور آغا کے صاحبزادے ہیں۔اب داستان گوئی میں ایک بڑا نام۔

جامعہ ملیہ کی دین 
ملک اور بیرون ملک داستان گوئی  کے پروگرام کرنے والے سید ساحل آغا  کہتے ہیں کہ داستان گوئی کا رجحان ان میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زمانہ طالب علمی میں پروان چڑھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ لوگ پڑھنے کے مقابلے میں سننا زیادہ پسند کرتے ہیں،اس لیے میں نے سوچا کہ کہانیوں کو سنایا جائے تاکہ عوام ماضی سے واقف ہو سکیں اور اس سے سبق بھی لیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے پہلے  سید ساحل آغا نے بطور مصنف  داستانِ ہند نامی کتاب لکھی ۔اس کے بعد  کتاب کی  داستانوں کو ویڈیوز کی شکل میں  پیش کیا ۔ وہ پہلے  مصنف کے طور پر سامنے آئے اور دوسری طرف داستان گوئی میں قدم رکھا۔
ہندوستان میں داستان گوئی کا سلسلہ اگرچہ صدیوں پرانا ہے، لیکن یہ فن 1928 میں میر باقر علی کی وفات کے بعد گویا ختم ہوگیا تھا۔ تاہم 2005 میں شمس الرحمان فاروقی، نصیر الدین شاہ اور محمود فاروقی نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔ اسی  سلسلے میں سید ساحل آغا کا نام بھی نمایاں ہے۔ ان کا مقصد صرف کہانیاں سنانا نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب کو فروغ دینا بھی ہے۔
نئی نسل ۔ نیا انداز 
 بلاشبہ سید ساحل آغا نے ایک ایسے فن کو نئی زندگی دینے کی مہم کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا جسے عام کے بجائے خاص  محفلوں تک محدود مانا جاتا ہے۔ بہرحال سید ساحل آغا نے روایتی داستان گوئی کو ایک  نیا انداز بخشا ۔وہ پہلی بار “میوزیکل داستان گوئی” کا تصور لائے ۔جس میں ہندوستانی اوپیرا اور کلاسیکی موسیقی کو داستانوں کے ساتھ جوڑا گیا۔ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ، جس نے داستان گوئی کو نئی نسل کے لیے مزید پرکشش بنا دیا۔
 
 
داستانوں کی داستان 
اگر بات کریں سید ساحل آغا کی پیش کردہ داستانوں کی تو ان کی ایک طویل فہرست ہے جو انہوں نےہ ملک اور بیرون ملک پیش کی ہیں ۔ایک وسیع اور گہری سوچ کا نمونہ ہیں یہ داستانیں ۔ جن میں  داستان محبوب الٰہی، داستان امیر خسرو، داستان غالب، داستان داغ، داستان میر، داستان شعیب اختر، جشنِ جاوید اختر، داستان دہلی کے شاعروں کی، داستان آخری داستان گو، داستان تقسیم، داستان عشق، داستان فتح، داستان سلطان صلاح الدین سمیت درجنوں داستانیں شامل ہیں۔ 
داستان گوئی  اور نئی نسل 
سید ساحل آغا کہتے ہیں کہ داستان گوئی ماضی کو زندہ رکھنے کا خوبصورت طریقہ ہے،نئی نسل تک تاریخ اور تہذیب کو منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کیونکہ میرا ماننا ہے کہ  جب قومیں اپنا ماضی بھول جاتی ہیں وہ مستقبل میں اپنے ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دہرانے کا عذاب جھیلتی ہیں۔اس لیے اپنی تاریخ کو ہر حال میں یاد رکھئے اور دوسری نسلوں تک اس کی منتقلی کا ذریعہ بننے کی کوشش کرنا ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ مثبت پہلو یہ ہے کہ نئی نسل نے داستان گوئی میں دلچسپی لے  رہی ہے جو اس فن کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغام ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو کی مٹھاس اور داستان گوئی کی دلکشی نئی نسل کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ قوالی کی طرح داستان گوئی بھی نوجوانوں میں مقبولیت پا رہی ہے۔
 
 
سوشل میڈیا نے سہارا دیا
بات جب نئی نسل کی ہوتی ہے تو سوشل میڈیا کا ذکر بھی خود بخود آجاتا ہے ۔آج کی دنیا میں سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم  جس کو راس آگیا اس کی قسمت کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ سید ساحل آغا کہتے ہیں کہ  داستان گوئی کی تشہیر اور مقبولیت کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہی ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک رسائی ممکن ہے۔
سید ساحل آغا کو داستان گوئی میں اپنے جوہر دکھانے پر متعدد ایوارڈز ملے ہیں