سراج الدین قریشی: لڑکیوں کی تعلیم کے علمبردار

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-11-2025
سراج الدین قریشی: لڑکیوں کی تعلیم کے علمبردار
سراج الدین قریشی: لڑکیوں کی تعلیم کے علمبردار

 



 منصورالدین فریدی، نئی دہلی

پُرانی دہلی کی تنگ و پیچیدہ گلیوں سے نکل کر ایک عام سے آغاز سے ایک دوراندیش صنعتکار، سماجی مصلح اور کمیونٹی کے باوقار رہنما بننے تک، سراج الدین قریشی کی زندگی دراصل محنت، عزم اور خوداعتمادی کی ایک غیر معمولی داستان ہے۔ آج وہ 77 برس کے ہیں اور انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے سب سے طویل عرصے تک صدر رہنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لودھی روڈ پر واقع اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر انہی کی قیادت میں حقیقت بنی، جو آج دہلی میں مسلم کمیونٹی کے علمی و ثقافتی وقار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا سفر کتنی سادہ اور محنت کش زندگی سے شروع ہوا تھا۔ ان کے والد پرانی دہلی میں ایک چھوٹی سی ٹِن کی ورکشاپ چلاتے تھے جہاں ٹِن کے ڈبے بنائے جاتے تھے۔ سراج الدین نے ابتدائی تعلیم صدر بازار کے رحیمیہ مدرسہ سے حاصل کی، اور کم عمری میں ہی اپنے والد کے ساتھ اسی کارخانے میں ہاتھ بٹانے لگے۔بچپن سے ہی ان کی طبیعت میں خودداری، خود اعتمادی اور محنت کا جذبہ نمایاں تھا۔ اگرچہ والد انہیں بے حد چاہتے تھے، مگر وہ اپنی روزی خود کمانا پسند کرتے۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں ہی سڑکوں پر روح افزا، قلفی اور ڈبل روٹی بیچ کر اپنی محنت سے پیسہ کمایا، مگر ساتھ ہی تعلیم کے شوق کو کبھی مرنے نہیں دیا۔

مدرسہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے دریا گنج کے اینگلو عربک اسکول میں داخلہ لیا، پھر دہلی یونیورسٹی کے کروری مل کالج سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لا سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ تاہم ان کا دل کاروبار کی دنیا میں تھا۔ بلند حوصلے اور تیز فہم ذہن کے ساتھ انہوں نے کاروبار کا آغاز کیا اور وقت کے ساتھ وہ ہندوستان کے معروف صنعتکاروں میں شمار ہونے لگے۔مگر ان کی پہچان صرف ایک کامیاب بزنس مین کی نہیں، بلکہ ایک سماجی مصلح کے طور پر بھی بنی , خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہیں۔

لڑکیوں کی تعلیم

  وہ کہتے ہیں کہ میں نے برادری میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے حلف دلایا،نوجوانوں کو  روایتی  اور خاندانی پیشے سے ہٹ کر نئے میدانوں کا رخ کرنے کی ترغیب دی ،اسکول  اور کالج قائم  کرانے ،شادی میں فضول خرچ کے خلاف مہم چھیڑی ،اجتماعی شادیوں کا آغاز کیا ،جنہوں نے ان تبدیلیوں کے خلاف راہ اختیار کی انہیں سماجی بائیکاٹ کا ذائقہ چکھایا ۔ جس کے سبب برادری میں مجموعی طور پر بڑی تبدیلی آئی جسے اب ہر کوئی محسوس کررہا ہے ۔۔۔

  سراج الدین قریشی کا ۔جن  کی زندگی  کسی فلم کی اسکرپٹ کی مانند ہے جو اپنی محنت اور جدوجہد کے سبب فرش سے عرش  تک پہنچے ،ایک تاجر سے  اپنی محنت سے صنعت کار بنے، پھر سماجی طور پر قریش برادری میں ایک تبدیلی ساز ۔ کیونکہ سراج الدین قریشی  نے ذاتی زندگی میں کاروباری کامیابیوں اور بلندی حاصل کرنے کے بعد معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کو بھی فرض سمجھا ۔ایک جانب اپنے کاروبار سے ہزاروں اور لا کھوں افراد کو روزگار فراہم کیا تو دوسری جانب معاشرے کو روشن خیال بنانے کے لیے پہل کی ۔
آواز ز دی وائس سے بات کرتے ہوئے سراج قریشی نے کہا کہ بیس سال قبل میں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے حلف دلانے کا آغام کیا تھا ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج70   سے 80 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں  بلکہ مختلف میدانوں میں نام روشن کررہی ہیں ،اسی کے ساتھ قریشی برادری میں شادی کو آسان بنانے کی تحریک شروع کی  جس میں بڑی کامیابی ملی ہے ۔نئی نسل کو نئی راہوں کو اپنانے کی ترغیب دی جس کے سبب آج قریشی برادری کے بیس فیصد لوگ ہی گوشت کے کاروبار سے منسلک رہ گئے ہیں ۔
پہلا میٹ  پروسیسنگ یونٹ 
 دراصل  سراج الدین قریشی نے  بالکل نچلی سطح سے کام شروع کیا تھا ، ابتدائی جدوجہد کے بعد انہوں نے ایک بڑ ابزنس گروپ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فوڈ پروسیسنگ اور مارکیٹنگ کے میدان میں ہند گروپ آف انڈسٹریز کے  ساتھ قدم رکھا ،جس کے  وہ چیئرمین و منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے 1989 میں اتر پردیش کے صاحب آباد میں پہلا  میٹ پروسیسنگ پلانٹ قائم کیا۔ اس کے بعد 1997 میں علی گڑھ، اتر پردیش میں سب سے جدید  سلاٹر ہاوس اور میٹ پروسیسنگ پلانٹ قائم کیا گیا۔ دراصل اپنی مہارت سے سراج الدین قریشی نے میٹ انڈیسٹری کا تصور ہی بدل دیا ۔ سراج الدین قریشی نے جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ سے یورپ اور افریقہ میں گوشت کی مارکیٹنگ کا نیٹ ورک قائم کیا ہے اور دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں اعتماد کی ایک پہچان بنائی ہے۔ 
مویشی پالن کا نظام 
سراج الدین قریشی کہتے ہیں  کہ اس پروجیکٹ کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے میٹ  پروسیسنگ پلانٹ کے ساتھ پسماندہ علاقوں میں کسانوں کے ساتھ مویشی پالن کا نظام قائم کیا، جہاں نر بھینس کے بچھڑوں کو تجارتی پیمانے پر پالا جاتا ہے۔ 1,60,000 کسان خاندانوں کے ساتھ چلنے والے اس منصوبے کے ذریعے بچھڑوں کی اموات 80 فیصد سے کم ہو کر 10 فیصد رہ گئی ہیں، کسانوں میں دودھ کی پیداوار میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ۔ان کا کہنا ہے کہ آج میٹ انڈیسٹری میں صرف بیس فیصد مسلمان ہیں جبکہ دیگر  ۸۰ فیصد غیر مسلم ہیں ۔یہ صنعت ملک کو بڑا زر مبادلہ دے رہی ہے۔سراج قریشی کے
ایک میدان تک محدود نہیں رہے قریشی 
 اپنی برادری کو روزگار کی نئی راہوں پر سفر کی ترغیب دینے والے سراج الدین قریشی نے خود کو بھی  ایک ہی کاروبار یا صنعت تک محدود نہیں رکھا بلکہ میٹ پروسیسنگ پلانٹ کے ساتھ ہی ان کا کاروباری دائرہ  ہوابازی، رئیل اسٹیٹ، ہاسپیٹیلٹی، کمیونیکیشن تک پھیل گیا ۔ سراج الدین قریشی، منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر ہوابازی کی صنعت میں 20 سال سے زائد کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ہند گروپ 2004 میں  تھائی ایئرویز (ویسٹرن انڈیا) کے جنرل سیلز ایجنٹ آفس کو کامیابی سے سنبھالا۔ ان کی کاروباری کامیابی اور سماجی حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سراج الدین قریشی ان چھ منتخب ہندوستانی صنعتکاروں میں شامل تھے جنہیں صدرِ امریکا باراک اوباما نے اپریل 2010 میں واشنگٹن میں صدارتی انٹرپرینیورشپ سمٹ کے لیے مدعو کیا تھا۔
 سماجی خدمات اور دیگر سرگرمیاں 
 ایک کا میاب صنعت کار  ہونے کے ساتھ سراج الدین قریشی  نے اپنی سماجی ذمہ داریوں  سے کبھی منھ نہیں موڑا ان کی سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی اداروں سے وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ معاشرے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے پیش پیش رہے ہیں ۔کاروباری مصروفیات کے باوجود وہ تعلیم، ثقافت اور سماجی و اقتصادی سرگرمیوں میں بھی وقت نکالتے ہیں۔ 
ان کی عملی سوچ کی وجہ سے وہ کئی قومی اداروں سے صدر، چیئرمین یا رکن کی حیثیت سے منسلک رہے ہیں،جن میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، آل انڈیا جمعیت القریش، انڈیا کویت چیمبر آف کامرس، فیڈریشن آف انڈیا-عرب چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری،  نوبل ایجوکیشن فاؤنڈیشن، انڈیا بحرین جوائنٹ بزنس کونسل، انڈیا ملائیشیا جوائنٹ بزنس کونسل اور فرینڈز آف سینٹرل ایشیا فورم شامل ہیں ۔سراج الدین قریشی کو کئی نمایاں ایوارڈز ملے جن میں نیشنل اکیڈمی آف ویٹرنری سائنسز کی جانب سے آنریری فیلوشپ کا اعزاز بھی شامل ہے  ۔ 2006 میں آل انڈیا فوڈ پروسیسرز ایسوسی ایشن کی جانب سے  میٹ انڈیسٹری میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازے گئے 
اسلامک سینٹر  کا سنہرا دور 
راجدھانی کے باوقار انڈیا اسلامک سینٹر کا نام آتا ہے تو  سراج الدین قریشی کا چہرہ بھی ابھر تا ہے کیونکہ وہ اس ادارے کے  بیس سال تک صدر رہے  ،2005 سے 2025 تک سراج الدین قریشی کا دور رہا ،جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ آج جو عمارت لودھی روڈ کی شان بنی ہے اس کی تعمیر ڈیڑھ سال کے اندر کرائی ،جس پر آٹھ نو کروڑ روپئے کی لاگت آئی ،جسے چار ہزار ممبرز کی فیس اور بینک کے قرص کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا ۔اس میں متعدد ہال اور آڈیٹوریم  ،لائبریری اور میرج لان ہے جو اسلامک سینٹر کو مالی طور پر مضبوط کرتے ہیں ،جب یہ ادارہ راجدھانی میں مسلمانوں کی نمائندگی کا مرکز بن گیا۔ ملک و دنیا  کی بڑی بڑی شخصیات کی آمد نے اسلامک سینٹر کو وقار بخشا ۔سابق صدر اور میزائیل مین اے پی جے  عبدالکلام  کے ساتھ پرنب مکھرجی ،اٹل بہاری واچپئی اور لال کشن آڈوانی جیسی شخصیات نے اسلامک سینٹر کا رخ کیا ۔
پر امید ہیں
انہوں نے 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت بننے پر ذاتی طور پر انہیں مبارکباد دی تھی۔ آج جب وہ اپنے سفر پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کے چہرے پر اطمینان جھلکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بے حد خوشی ہے کہ ہماری برادری نے جو خواب دیکھا تھا، وہ حقیقت بن رہا ہے۔ ہماری خواتین اور نوجوان آج ہر شعبے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ تبدیلی تو ابھی شروعات ہے، منزل ابھی باقی ہے۔ سراج الدین قریشی کی زندگی اس بات کی روشن مثال ہے کہ اگر حوصلہ، محنت، اور مثبت سوچ ساتھ ہو تو کوئی منزل ناممکن نہیں۔ ایک چھوٹے سے کاریگر کے بیٹے نے اپنے عزم سے نہ صرف اپنی تقدیر بدلی بلکہ اپنی پوری برادری کو تعلیم، خودداری اور ترقی کی راہ دکھائی اور یہی ان کا اصل کارنامہ ہے