سری لتھا مینن / تریشور
صفنا اس بات کی مثال ہیں کہ خواب سچے ہو سکتے ہیں اگر انہیں دل سے دیکھا جائے اور ان کے لیے محنت کی جائے۔ ان کا خواب تھا سماج میں تبدیلی لائی جائے ،اس کے لیے انہوں نے سول سروسز کا راستہ منتخب کیا۔صفنا نذرالدین جنہوں نے 2020 کے یو پی ایس سی امتحان میں پورے ملک میں 45واں مقام حاصل کیا، 23سال کی عمر میں کیرالہ سے سب سے کم عمر مسلم خاتون آئی اے ایس افسر بنیں۔آج وہ کمیونسٹ کیرالہ میں لیبر کمشنر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں، اس سے پہلے وہ ضلع کلکٹر ملاپورم رہ چکی ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ خواب دیکھو اور ان کے پیچھے دوڑو، کامیابی یقینی ہے۔
صفنا ایک عوامی اجتماع میں کہتی ہیں کہ آپ کے پاس خواب ہونا چاہیے،وہ آپ کا اپنا خواب ہونا چاہیے۔ وہ ضرور پورا ہوگا۔میرا خواب آئی اے ایس افسر بننا تھا۔ آپ کا خواب کچھ اور ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کسی اور کی خواہش پر نہیں ہونا چاہیے،
وہ کہتی ہیں کہ آٹھویں جماعت میں ہی انہوں نے آئی اے ایس افسر بننے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا، حالانکہ اس وقت وہ جانتی بھی نہیں تھیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ مجھے صرف یہ پتا تھا کہ ایک آئی اے ایس افسر سماج کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے اور مثبت تبدیلی لا سکتا ہے
ان کے والد نے پولیس میں سب سے نچلے عہدے سے لے کر انسپکٹر کی پوسٹ تک محنت سے ترقی کی، جب کہ والدہ محکمۂ روزگار میں ٹائپسٹ تھیں۔ گھر میں محنت اور نظم و ضبط کی فضا نے ان کی شخصیت کو سنوارا۔ والدین نے ہمیشہ ان کے خوابوں کا ساتھ دیا، اگرچہ والد چاہتے تھے کہ وہ سائنس اسٹریم لیں، لیکن انہوں نے سماجی علوم اور ہیومینیٹیز کا انتخاب کیا۔ وہ کندریہ ودیالیہ کی ٹاپر رہیں اور کسی بھی شعبے کا انتخاب کر سکتی تھیں مگر سماجی علوم کو ترجیح دی۔
بعد میں انہوں نے اکنامکس میں گریجویشن کیا اور کیرالہ یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ انہوں نے ماسٹرز یا کسی اور کورس کے بجائے سیدھے یو پی ایس سی کی تیاری شروع کر دی۔فورچون آئی اے ایس اکیڈمی کے اساتذہ ان کی کامیابی کا راز ان کی منصوبہ بندی، عاجزی اور سیکھنے کی لگن کو قرار دیتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے مطابق ہم سب کو مشورہ دیتے ہیں لیکن ہر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا۔ صفنا نے جو منصوبہ بندی اور خود کو بہتر بنانے کا طریقہ اپنایا وہ دوسروں سے مختلف تھا۔
انہیں عوام کے سامنے بولنے میں دشواری ہوتی تھی۔ اکیڈمی کی ہدایت پر وہ روزانہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر مختلف موضوعات پر تقریر کرتیں اور اپنی جھجک کو ختم کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا کو ترک کیا، روزانہ دو گھنٹے اخبارات پڑھے، کلاسز میں شریک ہوئیں اور باقی وقت خود مطالعہ کرتی رہیں۔ وہ روزانہ 7 سے 10 گھنٹے پڑھائی کرتیں لیکن سب ایک منصوبے کے تحت۔ یہاں تک کہ دوستوں کے ساتھ روزانہ ایک کپ کافی پر وقت گزارنا بھی اسی منصوبے کا حصہ تھا۔ان کی سب سے اہم عادت ایک نوٹ بک میں سب کچھ لکھ لینا تھا تاکہ ہفتے کے آخر میں وہ آسانی سے دہرا سکیں۔
آج چند سال آئی اے ایس افسر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد، وہ کہتی ہیں کہ یہ بالکل درست نہیں کہ بیوروکریٹس ہمیشہ سیاسی دباؤ میں رہتے ہیں۔ ’ہمارے سامنے کئی رکاوٹیں آتی ہیں کیونکہ ہر مسئلے میں کئی اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں۔ سب کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایسا حل نکالنا ہوتا ہے جو سب کے لیے بہتر ہو
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ذاتی زندگی کے لیے وقت نکل آتا ہے،بعض دن میٹنگز رات گئے تک چلتی ہیں۔لیکن کچھ دن کافی پرسکون ہوتے ہیں۔ یہ بھی ذمہ داری والا عام کام ہی ہے۔ کندریہ ودیالیہ میں سماجی علوم پڑھتے وقت جب انہوں نے مختلف برادریوں اور طبقوں کے بارے میں جانا، تو انہیں احساس ہوا کہ وہ نسبتاً خوشحال ہیں اور سماج کے پسماندہ طبقوں کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس نے ان کے بچپن کے خواب کو اور مضبوط کر دیا۔آج بطور لیبر کمشنر، وہ مہاجر مزدوروں، بے قاعدہ مزدوری اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نمٹ رہی ہیں،شاید وہی منصوبہ بندی اور لگن کے ساتھ جو انہیں یو پی ایس سی میں کامیاب کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔