Story by ATV | Posted by Aamnah Farooque | Date 28-11-2025
محمد علی خالد: ایک شمع جو نئی نسل کی راہوں کو کررہی ہے روشن
ثانیہ انجم۔ بنگلورو
دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز ہر طرف نظر آتے ہیں، وہاں ایسے رہنمابھی ابھرتے ہیں جو امید کی روشنی جلائیں اور دوسروں کے لیے راستہ دکھائیں۔ محمد علی خالد وہ چمکتا ہوا ستارہ ہیں جنہوں نے اسکاؤٹنگ کے جذبے کو نوجوانوں میں زندہ کیا، ہندوستانی اسکاؤٹ موومنٹ کو عالمی سطح پر ممتاز بنایا، اور چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک لاکھوں نوجوانوں کی زندگیوں کو مثبت سمت دی۔ ان کی قیادت، قربانی اور وژن نے ثابت کیا کہ ایک شخص کی لگن نہ صرف کمیونٹی بلکہ پوری نسل کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ہندوستان کے بنگلورو کی مصروف گلیوں میں، جہاں ملک کی توانائی ہر طرف محسوس کی جا سکتی ہے۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں ایک نوجوان رضاکار کے طور پر وہ 10ویں نیشنل جامبوری کے انعقاد میں مصروف تھے۔ ہزاروں نوجوان ہندوستان بھر سے اکٹھے ہوئے، اور انہی لمحوں نے خالد کے دل میں ایک زندگی بھر جلنے والی روشنی پیدا کی۔ جس نے نہ صرف ان کی زندگی بلکہ عالمی اسکاؤٹ موومنٹ میں لاکھوں نوجوانوں کی زندگیوں کو بدل دیا۔
خالد نے اپنی بہترین کوشش، دوسروں کی مدد ، اور خدا و ملک کے لیے فرض کو اپنی زندگی میں نافذ کیا۔ ان کا سفر ابتدائی طور پر معمولی تھا، لیکن ان کی لگن نے انہیں جلد ہی قیادت کے عہدوں تک پہنچا دیا۔ 1999 تک، وہ ہندوستانی براہت اسکاؤٹس اینڈ گائیڈز کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بن گئے، جس کے آج 6.3 ملین سے زائد ممبر ہیں۔ خالد کی ترقی کسی ذاتی خواہش سے نہیں بلکہ اسکاؤٹنگ کی طاقت پر یقین سے ہوئی۔
قومی سطح پر خالد کا اثر فوری اور نمایاں رہا۔ 2003 سے 2009 تک بطور چیئرمین، فائنانس ریسورس کمیٹی، انہوں نے بی ایس جی کی مالی مضبوطی کو یقینی بنایا۔ 2011 سے 2017 بطور انٹرنیشنل کمشنر، انہوں نے ایشیا-پیسیفک ریجن اور دیگر ممالک کے قومی اسکاؤٹ تنظیموں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کیے۔ خالد کی سفارت کاری نے مخالفین کو اتحادی بنایا اور اسکاؤٹنگ کے اثر کو وسیع کیا۔ سال 2017 میں 17ویں نیشنل جامبوری کی قیادت کرتے ہوئے، خالد نے 26,000 شرکاء کو متحد کیا، جن میں بین الاقوامی اسکاؤٹس بھی شامل تھے۔ 2022 کے انٹرنیشنل کلچرل جامبوری میں 60,000 نوجوان شامل ہوئے، اور یہ ثابت ہوا کہ اسکاؤٹنگ کسی بھی بحران، جیسے کووڈ -19 میں بھی مضبوط رہ سکتی ہے۔
خالد 1995 میں اے پی آر میں شامل ہونے کے بعد، وہ تقریباً تین دہائیوں تک ریجنل اسٹریٹیجک پلاننگ میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ "وژن 2013" پلان کے ذریعے نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور پائیدار ترقی کے لیے حکمت عملی وسیع کی گئی، جس نے کم وسائل والے ممالک میں اسکاؤٹنگ کے پروگرامز کو وسعت دی۔ سال 2005 میں ورلڈ اسکاؤٹ کانفرنس میں ریزولوشنز کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر خالد نے پیچیدہ مذاکرات کو آسان بنایا۔ اسی سال، انہوں نے دوسرے ورلڈ اسکاؤٹ سیمینار آن پارٹنرشپ کا انعقاد بھی کیا، جس کے نتیجے میں "مراکش چارٹر - بنگلورو ایڈیشن" تیار ہوا، جو عالمی اسکاؤٹ تنظیم کی شراکت داری کی بنیاد بن گیا۔
سال 2014 سے 2017 تک ڈبلیو او ایس ایم کے رجسٹریشن فیز اور ووٹنگ سسٹم ٹاسک فورس میں، خالد نے اے پی آر کے مختلف این ایس او کے درمیان اختلافات ختم کیے۔ ان کی غیر جانبداری اور ہمدردی نے شکوک و شبہات کو اعتماد میں بدلا۔ انہوں نے ناروے اور منیلا کے فورمز میں جا کر تجاویز پیش کیں اور حل نکالا، جس سے عالمی اسکاؤٹنگ کی شفافیت اور استحکام میں اضافہ ہوا۔
سال 2016 سے جی ایس اے ٹی فسیلیٹیٹر کے طور پر خالد نے این ایس او کی رہنمائی کی۔ 2008 سے 2011 میں 13 ممالک کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور ماحولیات میں ان کی شمولیت کو قریب سے دیکھا۔ انہوں نے ایس اے اے این ایس او (ساؤتھ ایشین ایسوسیشن آف نیشنل اسکاؤٹ آرگنائزیشن ) کے قیام میں بھی کردار ادا کیا، جس نے سالانہ کیمپ اور سمٹس کے ذریعے خطے کے اسکاؤٹس کو متحد کیا۔
۔70 سال کی عمر میں بھی، 2020 سے بطور ایڈیشنل چیف نیشنل کمشنر، خالد ایگزیکٹو کمیٹی کی نگرانی کر رہے ہیں،۔ وہ نوجوانوں کی شمولیت کو یقینی بنا رہے ہیں، اور بی ایس جی کی ترقی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وہ عالمی سطح پر بھی نوجوانوں کی شمولیت کے لیے کام کر رہے ہیں اور ڈبلیو او ایس ایم کی یوتھ اینگیجمینٹ ٹاسک فورس کے رکن ہیں۔ سال 2016 سے جی ایس اے ٹی فسیلیٹیٹر کے طور پر خالد نے این ایس او کی رہنمائی کی۔ 2008 سے 2011 میں 13 ممالک کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور ماحولیات میں ان کی شمولیت کو قریب سے دیکھا۔ انہوں نے ایس اے اے این ایس او (ساؤتھ ایشین ایسوسیشن آف نیشنل اسکاؤٹ آرگنائزیشن ) کے قیام میں بھی کردار ادا کیا، جس نے سالانہ کیمپ اور سمٹس کے ذریعے خطے کے اسکاؤٹس کو متحد کیا۔
۔70 سال کی عمر میں بھی، 2020 سے بطور ایڈیشنل چیف نیشنل کمشنر، خالد ایگزیکٹو کمیٹی کی نگرانی کر رہے ہیں،۔ وہ نوجوانوں کی شمولیت کو یقینی بنا رہے ہیں، اور بی ایس جی کی ترقی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وہ عالمی سطح پر بھی نوجوانوں کی شمولیت کے لیے کام کر رہے ہیں اور ڈبلیو او ایس ایم کی یوتھ اینگیجمینٹ ٹاسک فورس کے رکن ہیں۔
ان کے اعزازات میں شامل ہیں: بی ایس اے سلور ورلڈ ایوارڈ 2010، اے پی آر چیئرمین ایوارڈ 2001، اے پی ڈسٹنگشڈ سروس آوارڈ 2012، اور ہندوستانی سلور ایلیفنٹ 1994۔ لیکن خالد کامیابی کو اعزازات میں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوانوں کی زندگیوں میں تبدیلی میں ناپتے ہیں۔ خالد کی قیادت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خاموشی سے، بغیر کسی ہنگامے کے قربانی دیتے ہیں۔ حکومت سے 1.5 ملین یو ایس ڈی کے گرنٹس حاصل کیے، اور اسکاؤٹنگ کی پائیداری کو یقینی بنایا۔
ان کی کوششوں نے لاکھوں نوجوانوں کے درمیان اتحاد قائم کیا اور اسکاؤٹنگ کی تصویر کو عالمی سطح پر روشن کیا۔
محمد علی خالد صرف اسکاؤٹنگ کے رہنما نہیں ہیں۔ وہ ایک ایسی روشنی ہیں جو قوموں، ثقافتوں اور نسلوں کو جوڑتی ہے۔ ان کی قیادت، قربانی اور خدمت کی لگن نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک شخص کا جذبہ ہزاروں زندگیوں کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ ان کی کہانی یاد دلاتی ہے کہ حقیقی تبدیلی سرگرمیوں یا نعروں سے نہیں، بلکہ ہمدردی، قربانی اور مستقل لگن سے آتی ہے۔