مشتاق احمد کا ریت کے ٹیلوں سے اسکائی لائنز تک کا سفر
Story by ATV | Posted by Aamnah Farooque | Date 25-11-2025
مشتاق احمد کا ریت کے ٹیلوں سے بلند آسمان تک کا سفر
ثانیہ انجم۔ بنگلورو
صحرا کے سنہری ٹیلوں پر بکھرے خواب جب آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں، تو انہیں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنے کے لیے ایک ایسی آنکھ چاہیے ہوتی ہے جو لمحوں کی گہرائی کو پہچان سکے۔ دبئی کی برق رفتار ترقی، بلند و بالا عمارتوں کی چمک، اور ریت سے اٹھتا ہوا ایک نیا عالمی شہر ان سب کی تصویری کہانی اگر آج دنیا کے سامنے موجود ہے تو اس کا بڑا حصہ مشتاق احمد کی محنت کا نتیجہ ہے۔ وہ ہندوستانی نژاد عظیم فوٹوگرافر، جس نے نہ صرف دبئی کی ترقی کو محفوظ کیا بلکہ اس کی روح کو اپنی لینس میں ہمیشہ کے لیے قید کر دیا۔
۔79 سالہ مشتاق احمد وہ شخص ہیں جن کی زندگی دبئی کی تاریخ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ہیلی کاپٹر سے برج خلیفہ کی تعمیر کے مناظر قید کرنا ہو یا 1970 اور 80 کی دہائی کی خاموش مگر تیزی سے بدلتی سڑکیں وہ ہر تبدیلی کے گواہ رہے ہیں۔ ان کی تصاویر صرف فوٹوگرافی نہیں بلکہ ایک شہر کے ارتقا کی مکمل داستان ہیں۔
بنگلورو میں پیدا ہونے والے مشتاق احمد ابتدا میں محض ایک نوجوان تھے جنہیں فوٹوگرافی سے شغف تھا، لیکن قسمت انہیں ایسے موقع پر دبئی لے آئی جب متحدہ عرب امارات ابھی اپنے سفر کی شروعات کر رہا تھا۔ 41 سال تک دبئی پولیس کی فوٹوگرافی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ رہ کر انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ پورے ملک کے بدلتے منظرنامے کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی صرف فوٹوگرافی نہیں کی۔انہوں نے ایک پوری ریاست کا بڑھتا ہوا قدم، اس کے خواب، اس کی کامیابیاں اور اس کا سفر عکس اپنے کیمرے میں قید کیا۔ ریت سے اٹھ کر عالمی مرکز بننے تک دبئی کے ہر مرحلے میں ان کی تصاویر ایک زندہ ثبوت ہیں۔
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تصویروں کو وہ اپنی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں۔ کرین کے ذریعے خانۂ کعبہ اور مسجد نبویؐ کے مناظر قید کرتے وقت ان کے دل میں جو جذبات تھے، وہ آج بھی ان کی آواز میں محسوس ہوتے ہیں۔ان کے مطابق ، اس پہلے لمحے کا احساس لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مقدس مقامات کی وہ نایاب تصویریں آج بھی دنیا بھر کے گھروں کی دیواروں کو رونق دیتی ہیں اور دیکھنے والوں کے دلوں میں عقیدت جگاتی ہیں۔
مشتاق احمد کو شیخ زاید بن سلطان آل نہیان جیسے عظیم رہنماؤں کو قریب سے دیکھنے اور تصویربند کرنے کا موقع ملا۔ شیخ زاید کی سادگی، شفقت اور دوراندیشی سے وہ آج بھی متاثر ہیں۔ شیخ راشد بن سعید المکتوم اور شیخ مکتوم بن راشد کے ساتھ گزرے لمحات نے انہیں قیادت میں انسانیت کی اہمیت سکھائی۔
۔1979 میں شیخ محمد بن راشد المکتوم کی شادی کی فوٹوگرافی ان کی زندگی کا یادگار موقع تھا۔ جب مشتاق نے جرأت سے گزارش کی کہ وہ گاڑی سے باہر آئیں تاکہ بہتر تصویر لی جا سکے، تو شیخ محمد مسکراتے ہوئے فوراً باہر آگئے ۔ یہ
لمحہ ان کی یادوں کا روشن ستارہ ہے۔
۔1970 کی دہائی میں جب دبئی کے پاس چند ہی بلند عمارتیں تھیں، مشتاق نے ہیلی کاپٹر سے کلاک ٹاور اور ریت سے بھرے میدانوں کی تصویریں لیں۔ 1980 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی وہ تاریخی تصویر جس وقت شیخ زاید روڈ بھی نہیں بنی تھی دبئی کی ترقی کے سفر کا ابتدائی ثبوت ہے۔ 2014 میں برج خلیفہ کی تصویر لینا ان کا پسندیدہ تجربہ رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تصویر دبئی کے ریت سے آسمان تک پہنچنے کے سفر کا ثبوت ہے ۔
اپنی خدمت کے دوران مشتاق نے لاتعداد تاریخی لمحات محفوظ کیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دبئی پولیس کی جانب سے دی گئی خصوصی تقریب جہاں کرنل ڈاکٹر احمد محمد السعدی نے ان کے ماتھے پر پیار سے بوسہ دیا ان کے لیے جذباتی اور یادگار لمحہ تھا۔ کم ہی لوگوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد اتنی عزت ملتی ہے۔ سات اولادوں اور ایک زوجہ کے ساتھ ان کی خاندانی زندگی ہمیشہ مضبوط رہی۔ ان کی بیوی نے ان کے سفر، مصروفیت اور عالمی ذمہ داریوں کو ہمیشہ سمجھا اسی لیے انہیں سب “ڈریم کپل” کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ان کی زندگی میں بے شمار شخصیات آئیں جیسے گلزار، محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلط محمود، دلیپ کمار، اور راحت فتح علی خان جیسے لیجنڈز۔ ان سے ہونے والی گفتگوئیں اور ان کی عاجزی آج بھی ان کے دل میں نقش ہیں۔ اسی طرح جنرل رائنا اور فیلڈ مارشل کے ایم کاریاپّا سے ملاقات ان کے لیے ایسا لمحہ تھا جیسے تاریخ کو ہاتھ لگا لیا ہو۔ نئے ہندوستانی فوج کی بنیاد رکھنے والے یہ رہنما ان کے لیے لازوال شخصیتیں ہیں۔
مشتاق احمد صرف ایک فوٹوگرافر نہیں ،وہ تاریخ کے محافظ، دبئی کی بدلتی ہوئی روح کے امین اور آنے والی نسلوں کے لیے بصری خزانے کے خالق ہیں۔