ڈاکٹر فرح عثمانی

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 12-06-2025
ڈاکٹر فرح عثمانی: سرحدوں سے آگے اُڑان کی کہانی
ڈاکٹر فرح عثمانی: سرحدوں سے آگے اُڑان کی کہانی

 



تحریر: اونیکا ماہیشوری

ایک صبح کا وقت تھا۔ نیویارک کی گلیوں میں خزاں کی سرسراہٹ تھی۔ اونچی اونچی عمارتوں کے سائے تلے ایک خاتون ہاتھ میں فولڈر تھامے ایک اپارٹمنٹ کے باہر کھڑی تھیں۔ چہرے پر ہلکی سی تھکن ضرور تھی، مگر آنکھوں میں عزم کی چمک تھی۔ وہ خاتون تھیں ڈاکٹر فرح عثمانی — بھارت کے صوبہ اترپردیش کی بیٹی، جو آج عالمی سطح پر ترقی، بااختیاری اور قیادت کی پہچان بن چکی ہیں۔یہ صرف ایک ڈاکٹر کی کہانی نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک خواب دیکھنے اور اسے حقیقت میں بدلنے کی داستان ہے۔

علی گڑھ سے نیویارک تک کا سفر

اتر پردیش کی مٹی میں پلنے والی فرح ایک سادہ مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، جہاں تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی تھی۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج سے امراضِ نسواں میں ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن اُن کے خواب اسپتال کی دیواروں تک محدود نہ تھے۔ وہ صحت کی پالیسیوں میں تبدیلی چاہتی تھیں۔ یہی خواہش انہیں لندن اسکول آف اکنامکس اور لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن لے گئی، جہاں سے انہوں نے ہیلتھ پالیسی، منصوبہ بندی  اور مالیات میں ماسٹرز کیا۔

فرح نے اپنی زندگی کے ساتھی کے طور پر جاوید عثمانی کا انتخاب کیا —ایک دیانت دار اور معروف آئی اے ایس افسر، جو بعد میں اترپردیش کے چیف سیکریٹری بھی بنے۔ ان کے دو بچے ہوئے — فراز اور سبا، جو آج خود بھی عالمی سطح پر پہچان رکھتے ہیں۔ لیکن یہ کہانی صرف خاندان کی تکمیل کی نہیں، بلکہ فرح کی ذاتی تکمیل کی جستجو کی کہانی ہے۔

روایتوں سے بغاوت کا آغاز

جب فرح نے اقوامِ متحدہ میں نوکری کے لیے نیویارک جانے کا فیصلہ کیا، تو یہ صرف ایک کیریئر موو نہیں تھا — بلکہ ایک سماجی سوچ کو چیلنج کرنے والا قدم تھا۔
عورت اکیلی اتنی دور جائے؟
بچوں کا کیا ہوگا؟
شوہر کیا کہیں گے؟
ایسے سوالوں نے ان کے راستے میں کانٹے بوئے، مگر وہ جانتی تھیں:

"اگر دنیا بدلنی ہے، تو خود کو بدلنے سے آغاز کرنا ہوگا۔

"اب اور نہیں": ایک عورت کی معاشی خودمختاری کی ابتدا

2007 میں جب وہ نیویارک پہنچیں، تو سب سے بڑی آزمائش ایک گھر کی تلاش تھی۔ لیکن یہ صرف اینٹ پتھر کا مکان نہیں، بلکہ وہ بنیاد تھی جس پر فرح نے اپنی آزادی، خودمختاری اور مالی فہم کی عمارت تعمیر کرنی تھی۔جب انہوں نے کرایہ سنا تو دل دہل گیا۔ اُس لمحے انہوں نے اپنے آپ سے کہا کہ اب اور نہیں۔انہوں نے یو این فیڈرل کریڈٹ یونین سے کم سود پر قرض لیا اور مین ہٹن کے بیچوں بیچ ایک اپارٹمنٹ خرید لیا — اُس دور میں، جب اکثر خواتین کرایے کے مکان کو ہی مقدر سمجھتی تھیں۔یہ فیصلہ ان کی زندگی کا ایک سنگِ میل بن گیا۔ آج، 15 سال بعد، وہ تقریباً قرض سے آزاد مکان کی مالک ہیں۔ یہ صرف ایک گھر نہیں، بلکہ ان کی سوچ اور جدوجہد کی مضبوط علامت ہے۔

عالمی سطح پر ایک بھارتی مسلمان عورت کی شناخت

ڈاکٹر عثمانی نےUNFPA (اقوامِ متحدہ کا پاپولیشن فنڈ) میں کام کرتے ہوئے 50 سے زائد ممالک میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، صحت کی خدمات، منصوبہ بندی اور قیادت کے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا۔وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی سول سروس میں ڈائریکٹر سطح پر پہنچنے والی بھارت کی پہلی مسلمان خاتون بنیں۔انہوں نے محسوس کیا کہ عالمی سطح پر مسلم خواتین کی شبیہ ایک روایتی ڈھانچے میں قید ہے۔ انہوں نے اس تصور کو توڑنے کا بیڑا اٹھایا۔

"رائزنگ بیونڈ دی سیلنگ": ایک تحریک کا آغاز

ہماری کہانیاں صرف پردے اور دوپٹے تک محدود کیوں ہیں؟

اسی سوال سے متاثر ہو کر ڈاکٹر فرح عثمانی نے Rising Beyond the Ceilingکے نام سے ایک عالمی پہل کی بنیاد رکھی ، جو بھارت کی مسلم خواتین کی کامیابیوں کو دنیا کے سامنے لاتی ہے، ان کی چھپی ہوئی کہانیوں کو اجاگر کرتی ہے اور سماج میں موجود تعصبات کو چیلنج کرتی ہے۔یہ پہل صرف کتابوں یا تقاریر تک محدود نہیں رہی — یہ ایک تحریک بن گئی۔ ایک ایسی مشعل، جو ہر اُس عورت کے لیے امید کی کرن ہے جو چھوٹے شہر میں بیٹھ کر بڑی دنیا کا خواب د یکھتی ہے۔

صرف نظریہ نہیں، سرمایہ کاری بھی

ڈاکٹر عثمانی کا ماننا ہے کہ پیسہ صرف ضرورت نہیں، طاقت بھی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ پیسے کی باتوں سے ڈرنے کے بجائے ہمیں اس سے دوستی کرنی چاہیے۔ان کے شوہر نے انہیں سکھایا کہ جو پیسہ منافع نہیں کما رہا، وہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔یہیں سے ان کی مالیاتی بیداری کی شروعات ہوئی۔ انہوں نے ٹیکس فری سیونگز، ایف ڈی، اور این آر ای ڈپازٹس میں سرمایہ کاری شروع کی۔اب ان کی بیٹی سبا بھی مین ہٹن میں ایک رئیل اسٹیٹ سرمایہ کار بن چکی ہے۔یہ صرف مالی وراثت نہیں، بلکہ سوچ کی وراثت ہے — جو نسل در نسل بااختیاری کی نئی کہانی لکھ رہی ہے۔

اعزازات اور اعتراف

ڈاکٹر عثمانی کو عالمی بینک اور برٹش کونسل سے میرٹ فیلوشپ سمیت، 2021 کا مہاتما ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔ انہوں نے خواتین، اقلیتوں، اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے عالمی سطح پر کام کیا۔وہSAFAR (Supporting Action for Advancement and Rights) نامی فلاحی ادارے کی عالمی نائب صدر بھی ہیں، جو محروم طبقات کی خواتین اور لڑکیوں کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔

وراثت کی اصل تعریف

ڈاکٹر عثمانی کہتی ہیں کہ ہماری مائیں اور نانیاں جو پیسے گدّوں میں چھپاتی تھیں، وہ صرف سکے نہیں تھے — وہ خود مختاری کی کوشش تھی۔اب وقت ہے کہ خواتین پیسے کو شرم نہیں، طاقت سمجھیں۔

اختتام نہیں، ایک نئی شروعات

ڈاکٹر فرح عثمانی کی کہانی ایک ناول کی مانند ہے،جس میں جدوجہد کا آغاز ہے، ایک پرعزم ہیروئن ہے، تبدیلی کی مسافت ہے، اور بالآخر روشنی کی طرف سفر ہے۔یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اگر حوصلہ ہو، تو گھر کی چار دیواری بھی دنیا کی سب سے اونچی عمارت کی چھت بن سکتی ہے۔اور ایک عورت ،جب اپنی پہچان خود تراشتی ہے ، تو وہ صرف اپنے لیے نہیں، آنے والی ہر نسل کے لیے ایک راستہ ہموار کرتی ہے۔کیونکہ اصل بااختیاری تب ہوتی ہے، جب ایک عورت کہتی ہے:

اب اور نہیں... اب میں خود طے کروں گی اپنی سمت!