بازارکومہکانے لگی قنوج کے عطر کی خوشبو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-03-2021
قنوج کاعطر
قنوج کاعطر

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

”جی ہاں!کورونا اور لاک ڈاؤن کا اثر عطرکی صنعت پر بھی پڑا مگر اب اس کے اثر سے نکل رہی ہے“ یہ کہنا ہے ایس ایم ملک کا جو خوشبووں کے شہر قنوج کے رہنے والے ہیں او ر اس کاروبار سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ عطر کی صنعت پر اتار چڑھاؤ ضرور آئے مگر کبھی زوال نہیں آیا۔ یہ صدیوں سے چلی آرہی ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ آگے بھی جاری رہے گی۔ واضح ہوکہ اتر پردیش کے قنوج کوخوشبووں کے شہر کے طور پر جانا جاتاہے۔ اسے عطرنگری بھی کہتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ قنوج کی ہواؤں میں بھی خوشبو بکھری ہوتی ہے۔ یہاں پرانے زمانے سے عطرکا کاروبار چل رہا ہے اور اس کی مانگ ساری دنیا میں ہے۔یوں تو اس صنعت میں سبھی مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں مگر مسلمان کثرت سے ہیں۔ایسے خاندان بڑی تعداد میں مل جائیں گے جن کے آباء واجداد نے اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام ہی نہیں کیا۔

قنوج کی گلیوں سے نیویارک کے بازار تک

قنوج کی خوشبو کو دنیا میں جگہ بنانے میں ایک وقت لگا ہے اور آج دنیا کا کوئی بھی ملک اس کے سحر سے آزاد نہیں ہے۔ قنوج کا عطردنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ یہ یوروپ وامریکہ سمیت دنیابھر کے ممالک میں جاتا ہے اورمشرق وسطیٰ تو اس کے استعمال کا خاص مرکز ہے۔کورونا کال کا اثر اس صنعت پر بھی پڑا ہے مگر باجود اس کے، کاروباریوں نے دوبارہ اپنے کام دھندے شروع کرد ئیے ہیں۔ اس صنعت کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ یہ گھر گھر تک پھیلی ہوئی ہے اور جن لوگوں کے پاس بڑے کارخانے کے لئے جگہ نہیں،وہ اپنے گھروں میں بھی کام کرتے ہیں۔اس صنعت کو ایسی عمومیت حاصل ہے کہ جب قنوج کی سرزمین پر بارش ہوتی ہے تو یہاں کی مٹی میں بھی ایک خاص قسم کی خوشبو بکھرجاتی ہے۔

عطر مہنگے کیوں؟

عطراتنے مہنگے کیوں ہوتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ایس ایم ملک نے کہا کہ اس میں استعمال ہونے والے مٹیریل بہت مہنگے آتے ہیں۔پھولوں کی قیمت کم نہیں ہے اور روح گلاب وروح کیوڑا تو بہت ہی مہنگے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں اس میں استعمال ہونے والے مسالے بھی قیمتی ہوتے ہیں۔ شمامہ اور کچھ دوسرے عطروں میں استعمال ہونے والے اجزاء کی قیمت لاکھوں روپئے میں بنتی ہے،ایسے میں لازمی طور پر اچھے عطر قیمتی ہی ہونگے۔ واضح ہوکہ قنوج میں مختلف اقسام کے پھولوں،لکڑیوں،گھاس اور قدرتی اشیاء سے عطر کشیدکئے جاتے ہیں۔

مٹی اور سمندر کے نمکین پانی سے بھی خوشبو کشید کی جاتی ہے۔ مسالوں کا بھی عطر میں استعمال ہوتا ہے۔ دار چینی، الائچی، لونگ،سونف، زیرہ، پودینہ،آم اور لیموں کا استعمال عطر میں عام ہے۔ لکڑیوں میں صندل اور عود کا استعمال ہوتاہے۔لوبان اور گھاس سے بھی عطربنتے ہیں۔غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ قنوج میں دنیاکے سب سے سستے عطر سے لے کر سب سے مہنگے عطرتک بنائے جاتے ہیں۔سب سے مہنگا عطر ’عطر عود‘ ہے جو ایک لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔ یہ لکڑی آسام سے آتی ہے۔ اس ایک گرام عطر کی قیمت لگ بھگ 5000 روپے ہے۔

کیسے بنتاہے عطر؟

عطربنانے کے مراحل

قنوج میں عطربنانے کا پرانا طریقہ ہی رائج ہے۔ یوں تو آج کل نئی مشینیں بھی اس کام کے لئے آگئی ہیں مگر لوگ انھیں استعمال کرنے کے بجائے روایتی طریقے کو اپنانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کے لئے جس قسم کے برتنوں کا استعمال ہوتا ہے،ان کی روایت ہزارسال سے بھی پرانی ہے۔ قنوج کے محمد فیض بتاتے ہیں کہ عطر بنانے کے لئے پھول لائے جاتے ہیں اور انھیں بڑی بڑی دیگوں میں پکایاجاتے ہے۔ دیگ پوری طرح سے بند ہوتی ہے اور اس کے اوپر ایک پائپ جیسی چیز ہوتی ہے جس سے ہوکر عطر دوسرے برتن تک بھاپ کی مدد سے پہنچتا ہے۔

عطر کا استعمال کہاں کہاں؟

آج کل عطر کا استعمال صرف بدن اور کپڑوں کو خوشبودار بنانے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ دوسری اشیاء میں بھی ہوتا ہے، مثلاً کاسمیٹکس، گٹکھے اور پان مسالہ بنانے میں۔صابن، واشنگ پاؤڈرسے لے کر فرش کو صاف کرنے والی لکوڈ دواؤں میں بھی مستعمل ہے۔ یونہی آج کل کورونا سے بچاؤ کے لئے ہاتھ میں لگانے والے سینیٹائزرمیں طرح طرح کی خوشبوئیں ڈالی جاتی ہیں۔ چاکلیٹ، چائے، کافی اورکیک میں بھی خوشبو ڈالی جاتی ہے۔

کہاں سے آتا ہے مٹیریل؟

قنوج کی عطروں میں جواجزاء استعمال ہوتے ہیں، وہ مختلف علاقوں سے آتے ہیں۔ شہر کے نواح میں بڑے پیمانے پر پھول کی کھیتی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ قنوج کے عطرکارخانوں کے لئے علی گڑھ سے پھول آتے ہیں۔ علی گڑھ میں گلاب کے ساتھ ساتھ بیلا، چمبیلی اور کچھ دوسرے پھولوں کی بھی کھیتی ہوتی ہے۔ اترپردیش کے کچھ دوسرے علاقوں میں بھی گلاب کی کاشت ہوتی ہے۔ جبکہ کیوڑے کے پھول اڈیشا سے آتے ہیں۔ یونہی اس میں استعمال ہونے والے مسالے جیسے لونگ، الائچی اور دارچینی وغیرہ جنوبی ہند سے آتے ہیں۔ صندل بھی کرناٹک اور تمل ناڈو سے آتے ہیں جب کہ عودکی لکڑی آسام سے آتی ہے۔ عود کا ایک درخت پکنے میں 20-25 سال کا عرصہ لیتا ہے اور 40-50 لاکھ میں فروخت ہوتا ہے۔یہ عطر خالص قدرتی اجزاء سے بنائے جاتے ہیں اور اس میں الکحل کی آمیزش بالکل نہیں ہوتی ہے۔

مٹی اورپانی سے بھی بنتا ہے عطر؟

پھولوں،پتیوں،گھاسوں،مسالوں کے علاوہ مٹی سے بھی خوشبو بنائی جاتی ہے۔مردوں کے پرفیومز میں سب سے زیادہ رحجان سی واٹر یا سمندری نمکین ہوا کی خوشبو کا شامل ہونا ہے۔ قنوج میں مٹی سے عطربنانے کا رواج بھی قدیم زمانے سے چلا آتاہے۔ اس کے لئے، مٹی کو تانبے کے برتنوں میں پکایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مٹی سے نکلنے والی خوشبو میں بیس آئل ملا یا جاتا ہے۔ اس طرح،مٹی سے خوشبو بنتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ دنیا کا سب سے مہنگاعطرقنوج میں بنایا جاتا ہے۔اس کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ صرف فرحت کے لئے اس کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ بے چینی اور دماغی تناؤ سے بچنے کے لئے بھی خوشبو کا استعمال کیا جاتا ہے۔

خوشبووں کی تاریخ

اس دھرتی پر انسانی تہذیب کی تاریخ جس قدر پرانی ہے،اسی قدر پرانی ہے خوشبووں کی تاریخ بھی۔جبکہ قنوج، صدیوں سے عطریات وخوشبوئیات کا مرکز رہا ہے۔ یہاں سے دنیابھر میں عطریات بھیجنے کا سلسلہ قدیم زمانے سے جاری ہے اور شمامتہ العنبر، دہن العود، خشب العود کے نام صدیوں سے مشہور ہیں اور ان کے نام تاریخ کی کتابوں میں آتے ہیں۔جو عطر زیادہ مشہور ہیں،ان میں صندل، مشک، گلاب،بیلا، چمیلی،عنبر،چمپا، موتیاکے نام لئے جاسکتے ہیں۔ عرق گلاب وعرق کیوڑہ کا بھی صدیوں سے استعمال ہوتا رہا ہے۔

مشہور ہے کہ مغل ملکہ نورجہاں نے سب سے پہلے عطرگلاب کودریافت کیا تھا۔ روایت ہے کہ ملکہ ایک حوض میں غسل کیا کرتی تھی جس میں گلاب کے پھول کی پنکھڑیاں ڈالی جاتی تھیں۔ بار بار کے استعمال کے بعد ملکہ نے پانی کی سطح پر تیل کے چند قطرے تیرتے دیکھے اور جب جمع کرکے سونگھا تو گلاب کی خوشبو آرہی تھی۔ اس طرح گلاب کی خوشبو کشید کرنے کاخیال اس کے ذہن میں آیا۔