کراچی میں ٹیکسٹائل کی صنعت بند ہونے لگی، ہزاروں افراد بےروزگار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 03-07-2022
کراچی میں ٹیکسٹائل کی صنعت بند ہونے لگی، ہزاروں افراد بےروزگار
کراچی میں ٹیکسٹائل کی صنعت بند ہونے لگی، ہزاروں افراد بےروزگار

 

 

کراچی: مجھے ایک ہفتہ قبل اچانک ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ والدین، بیوی اور تین بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا ہوں۔ کچھ دن پہلے تک رات دیر گئے کام سے گھر آنے پر جو ناراضگی رہتی تھی وہ اب ختم تو ہوئی ہے، لیکن ساتھ ہی روزگار بھی ختم ہوگیا ہے۔‘ یہ کہنا ہے کراچی کے علاقے کورنگی کے رہائشی نجیب اللہ کا جنہیں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اب سمجھ نہیں آ رہا کہ گھر کے اخراجات چلانے کے لیے کہاں سے پیسے لاؤں؟ نوکری نہیں ہے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ پریشانی بھی بڑھ ہی ہے۔‘

پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ٹیکسٹائل انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہونے لگی ہے، پیداواری لاگت بڑھنے اور آرڈز نہ ہونے کی وجہ سے فیکٹری مالکان نے یونٹ بند کر کے ہزاروں افراد کو نوکریوں سے فارغ کر دیا

۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں چین، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں سستا مال میسر ہے۔ خریدار پاکستان کے بجائے دیگر مارکیٹوں سے سودے کر رہے ہیں۔ صنعت کاروں کے مطابق ایسے میں صنعتوں کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

ٹیکسٹائل سیکٹر کو سستے نرخوں پر یوٹیلیٹز فراہم نہیں کی گئی تو آنے والے دن مزید مشکل ہوں گے۔ نجیب اللہ کراچی کے ضلع کورنگی کے صنعتی علاقے میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں کوالٹی چیکر کا کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ سے فیکٹری میں کام نہ ہونے کے برابر تھا۔

ابتدائی طور پر تین شعبوں سے سٹاف کم کیا گیا۔ ’اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے چند دنوں میں یہ تمام یونٹس بند ہو جائیں گے اور ہمیں بھی بیروزگار ہونا پڑے گا۔‘ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کے واحد کفیل ہے۔ سات افراد پر مشتمل خاندان ہے اور وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کورنگی ناصر جمپ کے پاس کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ ’10 سال قبل ٹیکسٹائل فیلڈ میں کام شروع کیا تھا اور مناسب آمدنی تھی۔ گزارا مشکل ضرور تھا، لیکن ہو رہا تھا۔ اب تو صورتحال ہی مختلف ہے۔

ایک ہفتے قبل فیکٹری نے ہمارا شعبہ بھی بند کر دیا اور مجھ سمیت 121 افراد کو فارغ کر دیا۔ تمام ہی لوگ پریشان ہیں کیونکہ سب ہی ہماری طرح تنخواہ دار تھے جن کی تنخواہ آنے سے قبل حساب میں پیسے بٹ جایا کرتے تھے

۔واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں بجلی اور گیس سمیت دیگر یوٹیلیٹز کی مد میں اضافے کی وجہ سے اشیا کی تیاری کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتیں کافی متاثرہ ہوئی ہیں۔ کراچی کے پانچ بڑھے صنعتی زونز میں تقریباً 30 سے زائد یونٹس بند ہوئے ہیں۔

اس وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کراچی میں کام کرنے والے چار بڑے یونٹس سے اب تک تقریباً 8500 سے زائد افراد کو فارغ کیا جا چکا ہے جبکہ دیگر یونٹس میں بھی چھانٹی جاری ہے۔

صدر ایوان صنعت و تجارت کراچی محمد ادریس نے اس بات کی تصدیق کی کہ کراچی میں ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو رہے ہیں اور وہاں کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ورکرز کو بھی فارغ کیا جا رہا ہے۔

محمد ادریس نے اردو نیوز کو بتایا ’کراچی کی بیشتر صنتعوں میں تین شفٹوں کو دو شفٹ میں کر دیا گیا ہے۔ امریکہ یورپ سے کام نہیں مل رہا تو مشکلات ہو رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں خریدار پاکستان کو آرڈز دینے میں بھی احتیاط کر رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے مقررہ وقت پر مال کی فراہمی پر انہیں کچھ خدشات ہیں۔

اس کی اہم وجوہات ہر گزرتے دن کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی و گیس کا بحران ہے۔‘ کراچی میں کپڑے کے بروکر عثمان زاہد کا کہنا تھا اس وقت مارکیٹ کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ چار ماہ پہلے لومز کا ریٹ 50 پیسہ فی پک تھا، لیکن اب کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوم 38 پیسہ فی پک میں مل رہی ہے مگر گاہک موجود نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا ’سائیٹ کراچی میں جہاں سے سے مال تیار کرواتے ہیں اس فیکٹری مالک کا کہنا ہے گزشتہ ماہ گیس کا بل ڈیڑھ کروڑ کا تھا جو اس ماہ ڈھائی کروڑ ہو گیا ہے۔

ایسی صورتحال میں پیدارواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے اور طے شدہ معاہدے کے مطابق مال فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘ محمد ادریس کے مطابق ’گیس کا بحران شدید ہو گیا ہے۔ وقت پر گیس کا سودا نہیں کیا اب مہنگے داموں خریدنا پڑ رہا ہے۔ ہر چیز یوٹیلیٹز سے جڑی ہے۔ کام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو چلانے کے لیے سستے داموں بجلی اور گیس کی فراہمی ہوگی تو ہی آرڈرز وقت پر تیار ہو سکے گا اور ایکسپورٹ کیا جا سکے گا۔ چھ ماہ قبل ٹیکسٹائل انڈسڑی میں بہت تیزی تھی اور تقریباً تمام فیکٹریاں دو سے تین شفٹوں میں کام کر رہی تھیں، لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ نجیب اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں چلنے والی صنعتوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ اگر اس صورتحال کو فوری کنٹرول نہیں کیا گیا تو بیروزگاری بڑھے گی اور عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل تر ہو جائے گا۔