اسٹرابیری – کشمیر کے زرعی موسم کی پہلی پھلوں کی فصل

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 18-05-2025
اسٹرابیری – کشمیر کے زرعی موسم کی پہلی پھلوں کی فصل
اسٹرابیری – کشمیر کے زرعی موسم کی پہلی پھلوں کی فصل

 



باسط زرگر

 وادیٔ کشمیر میں اس سال اسٹرابیری کی فصل کی کٹائی کا آغاز ہو چکا ہے، جو مقامی کسانوں کے لیے امید اور پریشانی دونوں لے کر آیا ہے۔ گاسو اور حضرت بل جیسے دیہات، جو اسٹرابیری کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں، وہاں کے کاشتکار موسم کی پہلی فصل چننے میں مصروف ہیں۔ تاہم، اس سال کی فصل کو بدلتے ہوئے موسمی حالات نے متاثر کیا ہے۔ اپریل میں شدید بارشوں اور مئی کے اوائل میں اچانک پڑنے والی شدید گرمی نے فصل کا ایک بڑا حصہ خراب کر دیا ہے۔

کئی کسانوں کا کہنا ہے کہ اس بار پیداوار معمول سے کم ہے، اور کچھ پھل تو کھیتوں میں ہی خراب ہو چکے ہیں۔ سرینگر ضلع کے ایک کسان منظور احمد نے بتایا، “ہماری تقریباً 30 فیصد فصل بارش کی وجہ سے ضائع ہو گئی ہے۔ اسٹرابیری بہت تیزی سے پک گئی اور ہم اسے توڑنے سے پہلے ہی گلنے سڑنے لگی۔ موسمی حالات کے علاوہ، سرد خانوں کی عدم دستیابی بھی کسانوں کے لیے ایک مسلسل مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اسٹرابیری ایک نہایت نازک اور جلد خراب ہونے والا پھل ہے، جسے فوری طور پر فروخت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مناسب ذخیرہ نہ ہونے کے باعث بہت سی کھیپیں منڈی تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو رہی ہیں۔

ان چیلنجوں کے باوجود، اسٹرابیری کی کاشت کشمیر میں بہت سے خاندانوں کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ یہ پھل کشمیر کے زرعی موسم میں سب سے پہلے پکنے والا پھل ہے، اور مقامی منڈیوں میں اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔کسانوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ بہتر سہولیات فراہم کرے، جن میں سرد خانے اور نقل و حمل میں مدد شامل ہیں، تاکہ آئندہ کی فصلوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ فی الحال، کشمیر کے اسٹرابیری کھیتوں میں سرگرمی تو عروج پر ہے، لیکن بے یقینی بھی چھائی ہوئی ہے۔

منظور احمد نامی ایک کاشتکار نےبتایا کہ میں 8 برسوں سے یہ کاشتکاری کرتا ہوں اور اپنی روزی روٹی اچھی طرح سے کماتا ہوں اور اپنے عیال کو بخوبی پالتا ہوں۔اسٹرا بری کشمیر میں سب سے پہلے تیار ہونے والا پھل ہے جس کو یہاں کے لوگ اور سیاح شوق سے کھاتے ہیں لیکن امسال جب یہ پھل تیار ہوا بد قسمتی سے اسی وقت پہلگام واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں اس پر گہرے اثرات مرتب ہوگئے۔اس کی اچھی مانگ بھی تھی ریٹ بھی تسلی بخش تھی لیکن جب سیاح واپس چلے گئے، اسکول، کالج بند ہوگئے جس سے بازاروں میں رش پھیکا پڑ گیا تو یکایک اس پھل کی مانگ اور ریٹ بھی متاثر ہوگئی۔

ان کا کہنا ہے کہ جس ڈبے کی بازار میں 80 سے 100 روپیہ ریٹ تھی وہ گر اب مشکل سے 40 روپیے میں بیچا جاتا ہے اور جو بڑا ڈبہ 6 سو روپیوں کا تھا وہ آج مشکل سے ہی ڈھائی سو روپیوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بازاروں میں ریٹ کے اچانک اس قدر گر جانے سے کسان مایوس ہیں دوسری طرف اس پھل کی عمر انتہائی کم ہوتی ہے اس کو زیادہ دیر تک سٹور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سال گذشتہ حکومت نے ریفرجریٹر گاڑیوں کے ذریعے اس پھل کو جموں کے بازاروں تک پہنچایا تھا جس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوا تھا لیکن امسال ابھی تک سرکار نے اس طرح کا کوئی اقدام نہیں کیا۔
منظور احمد   کا کہنا ہے کہ ہماری پوری بستی ہی اس فصل کی کاشتکاری سے ہی وابستہ تھی لیکن اب لوگ دوسرے ذرائع معاش اپنا کر اپنے عیال کی پرورش کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زمین کم ہوتی جا رہی ہے’۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ان کاشتکاروں کی مدد کے لئے فوری موثر اقدام کرے تاکہ ان کو بحران سے بچایا جا سکے۔وادی میں اسٹرا بری کی کاشتکاری ٹنگمرگ کے علاوہ جنوبی کشمیر کے کچھ علاقوں میں بھی کی جاتی ہے۔