با ادب با ملا حظہ ہوشیار۔ آموں کی ملکہ’ نور جہاں’ تشریف لا رہی ہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-07-2021
نورجہاں آم
نورجہاں آم

 

 

آموں کا بادشاہ تو ایک’ لنگڑا‘ہے۔ دنیا اسے بڑے فخر سے ’لنگڑا ہی کہتی ہے۔ نہ بادشاہ برا مانتا ہے اور نہ رعایا۔لیکن اب آموں کے شوقین خوش ہوجائیں کیونکہ آموں کی دنیا اب آموں کی ’ملکہ‘ کا خیرمقدم کررہی ہے۔جسے آم کے دیوانوں نے ’’نور جہاں‘ کا نام دیا ہے۔ یعنی ایک آم جو مغلائی نام رکھے گا۔ حالانکہ یہ لحیم شحیم آم کسی ’سپہ سالار‘کی طرح ہے،جس میں نزاکت ہے نہ نفاست لیکن اس کا نام ہے ’نور جہاں‘ ۔ لیکن جس نے اس آم کو شناخت بخشی ہے اس نے ’نور جہاں‘ کا نام دینا پسند کیا ہے۔ یہ آم ہے ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع علی راج پور کا ۔اب یہ 'نورجہاں' لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

یہاں کے مقامی افراد نورجہاں آم کی کاشت کرتے ہیں، یہ آم تین کلو سے ساڑھے تین کلو کا ہوتا ہے، اور ایک آم کی قیمت پندرہ سو روپئے ہے۔

یہ آم دنیا میں کہیں اور نہیں پایا جاتا ہے۔ آئیے اس آم کے بارے میں آم کے کاشتکاروں سے بات کرتے ہیں، جو پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ریاست مدھیہ پردیش کا علاقہ کاٹھیواڑ اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے پہلے سے مشہور ہے۔اب وہاں کے نورجہاں آم نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔

نورجہاں آم کے لئے سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کی ہے۔ مغل ملکہ کے نام سے منسوب ، یہ نادر آم ملک کا سب سے بڑا آم سمجھا جاتا ہے-نورجہاں آم کے درخت میں جنوری اور فروری کے آس پاس کسی وقت پھول آنا شروع ہو جاتے ہیں اور جون ماہ میں پھول پھل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کاشتکاروں کا خیال ہے کہ نورجہاں آم کی قسم سینکڑوں سال قبل گجرات کے راستے ہوتے ہوئے افغانستان سے ریاست مدھیہ پردیش آئے تھے۔ نورجہاں آم کی کاشت فی الوقت اس کی ملکیت اور انتظام شیو راج سنگھ یادو کررہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک نورجہاں آم بہت سے لوگوں کے برابر ہے۔ شیو راج سنگھ یادو کہتے ہیں کہ میرے والد نے اس فصل کی کاشت 1965 کے لگ بھگ شروع کی تھی۔ ہمارے پاس نورجہاں کے پانچ درخت ہیں اور 16 ایکڑ اراضی کے باغ میں 33 مختلف اقسام کے آم اُگائے جاتے ہیں۔

awazurdu

انہوں نے مزید کہا کہ یہ درخت 50 فٹ کی اونچائی تک بڑھتا ہے اور ہر ایک میں 100 آم سے کم آم ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نورجہاں آم پانچ درختوں سے مجموعی طور پر تقریباً350آم ہوتے ہیں۔اور پھل کے سائز کے حساب سے 500 روپے سے لے کر 1500 روپے تک فی آم فروخت کئے جاتے ہیں۔

شیوراج سنگھ یادو نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا نورجہاں اآم بھارت میں سب سے بڑا ہے۔ یہ قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے، اس میں کوئی کھاد وغیرہ استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ میں دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ بنیادی طور پر مٹی ، بارش ، موسم اور دیگر جغرافیائی حالات ہیں جو درختوں کی نشوونما کے قابل بناتے ہیں۔

نورجہاں آم کی حالیہ مقبولیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے شیو راج سنگھ یادو کہتے ہیں کہ نورجہاں آم ہمیشہ سے مشہور تھا ۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ عام کی کاشت کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لیے میرے والد کو دوردرشن پر بلایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ وہ 1978 سے 1981 تک درمیان دوسرے نیوز چینلوں پر بھی اآئے تھے۔

awazurdu

خیال رہے کہ شیوراج سنگھ یادو کے اآموں کے باغ میں تقریباً پانچ ہزار افراد آتے ہیں، ان کی مختلف قسم کے آموں کو خرید کے لے جاتے ہیں۔

شیوراج سنگھ یادو کہتے ہیں کہ اس بار کورونا وائرس کے سبب ان کی فصل متاثر ہوئی ہے، بہت کم لوگ یہاں آئے، اس لیے اس بار ان کی تجارت بہت کم ہو پائی ہے۔