مشروم کی کھیتی خواتین کو بنارہی خودکفیل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-03-2021
مشروم کی کھیتی میں شامل ایک خاتون
مشروم کی کھیتی میں شامل ایک خاتون

 

 

آج کل مشروم کی کھیتی بہت سے گھرانوں کو خود کفیل بنارہی ہے۔ خاص طور پرجوخواتین پہلے کچھ کمائی نہیں کرپارہی تھیں،وہ اب مشروم کی کھیتی کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اترپردیش کے ضلع شاہجہاں پورکے بلاک ناگوہی کے گائوں جُند پورہ کی خواتین نے خود کو گھر تک محدود نہیں رکھا ہے اور فارغ وقت میں کھیتی ک رہی ہیں۔ آدھی آبادی نے دھان یا گنے کے بجائےمشروم کی کاشت کرکے خود کفیل بنایاہے اوران کی تقدیر بدل دی ہے۔

ان کے ذریعہ اگائے جانے والے مشروم گاؤں سے شہرجاتے ہیں اور اچھی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔ شاہجہان پور سے 25 کلومیٹر دور جند پورہ گاؤں کی مسلم خواتین پہلے گھریلو کام تک محدود تھیں۔ خود چار پیسے کمانے کوکوشش میں انھوں نے پہلے کارچوبی کی اور بکرے پالے مگرکچھ خاص کمائی نہیں ہوئی تو مشروم کی کھیتی شروع کردی جس نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ دس خواتین پرمشتمل ایک سیلف ہیلپ گروپ تشکیل دے کر مشروم کاشت کرنے کا منصوبہ بنایا۔

نیہا کشیپ کو اس گروپ کا چیئرمین بنایا گیا۔ جبکہ منریگا نے حمایت کرتے ہوئے سرکاری اسکیم کا فائدہ دیا ، خواتین نے ایک منصوبہ بندی کے تحت چھوٹے سے رقبے پر مشروم کی کاشت شروع کی اورکچھ ہی دنوں میں ، بمپر مشروم تیار ہونے لگے۔ اب روزانہ 20 کلوگرام مشروم تیار کیا جارہا ہے۔ مشروم کو پولی تھین کے پیکٹوں میں پیک کیا جارہا ہے اور اس گروپ کے ذریعہ دیہات اور شہروں میں سپلائی کی جارہی ہے۔

مشروم کی کاشت نے خواتین کو معاشی طورپربااختیار بنانے کے ساتھ خود انحصاربھی کیاہے۔ اس گروپ کو دیکھ کر ، دیگر خواتین بھی مشروم کی کاشت کرنے کے لئے آگے آئیں۔ نیشنل رورل ایزوکا مشن کے بلاک مشن منیجر سنجے کمار نے بتایا کہ ایکتا گروپ کے ذریعہ روزانہ 20 کلوگرام مشروم تیار کیا جاتا ہے۔ یہ 150 روپے فی کلوگرام فروخت ہوتا ہے۔ اب ایک فصل کی تکمیل کے بعد ، خواتین دوسری فصل کو لگانے کی تیاری شروع کردیتی ہیں۔

اسی طرح ہریانہ کے پانی پت علاقے کے کئی گائوں کی خواتین بھی مشروم اگاکرخود کفیل بن رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خواتین کے پاس زمین تک نہیں۔ یہ اپنے گھروں میں مشروم اگاتی ہیں اور انھیں فروخت کرکے پیسے کماتی ہیں۔ واضح ہوکہ مشروم کی پیداوار پندرہ ایام میں ہی شروع ہوجاتی ہے۔ علا پور کی رہنے والی ریکھااور اوجھا کی میناکشی کے پاس نہ تو تعلیم ہےاور نہ ہی زرعی اراضی۔

مگروہ سائنسی طریقے سے گھر میں بیڈ روم اور ڈرائنگ روم میں پلاسٹک کے تھیلے رکھ کر مشروم تیار کررہی ہیں۔ ان سے متاثر ہوکر 20 دیہات کی 220 سے زیادہ خواتین اسی تکنیک کو اپنا رہی ہیں۔ اوجھا نے سرکاری مرکز میں تربیت حاصل کرکے مشروم پیداکرنے کی تکنیک سیکھی۔ پھر زرعی ماہرین کی مدد سے ، گھڑے میں پلاسٹک کے تھیلے میں مشروم اُگانا شروع کردیا۔ 20 ہزار خرچ کرنے کے بعد 1.20 لاکھ روپے تک کمایا۔