ملیح آبادکے آم،بڑا نام،کم دام

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 29-06-2021
ملیح آبادکے آم،بڑا نام،کم دام
ملیح آبادکے آم،بڑا نام،کم دام

 

 

لکھنو

ملیح آباد کے آم کے باغبان پریشان ہیں۔ انھیں آموں کی صحیح قیمت نہیں مل پارہی ہے۔ وہ نقلی دوائوں سے بھی پریشان ہیں جن کے چھڑکائو کا فصل پرکوئی اثر نہیں ہوااور پھلوں میں کیڑے لگ گئے۔ اترپردیش کی دارالحکومت لکھنؤ سےتقریباً 25 کلومیٹر دوری پر ملیح آباد ہے، اسے 'آم پٹی' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہاں کے آم کا ہر کوئی دیوانہ ہے لیکن اس سے جڑے باغبان پریشان ہیں۔ باغبان ایڈوکیٹ محمد طیب نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس بار آم کی فصل کا بہت نقصان ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ سال کے مقابلے امسال فصل بہتر ہے۔انہوں نے کہا کہ موسم کی مار، نقلی دوائیاں، اولے اور آندھی نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔انہوں نے کہا کہ اب آم پک کر تیار ہو رہے ہیں لیکن آم میں بیماری لگنے سے رنگ صاف نہیں ہے، جس سے اچھی قیمت نہیں مل پا رہی۔

طیب نے مزید بتایا کہ ہم نے شروعات سے ہی وقت پر دوائیوں کا چھڑکاؤ کیا لیکن نقلی دوا ہونے کی وجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔محمد طیب نے بتایا کہ ملیح آباد کا آم بھارت ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک میں اپنے ذائقے کے لئے مقبول ہے۔ ہمارے پاس کچھ لوگ آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ایسے آم چاہیے جو دو سو گرام سے کم نہیں ہوں اور آم بالکل صاف ستھرا ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے مشکل یہ کہ آم تو بہت ہیں لیکن کیڑا لگنے کی وجہ سے آم کی رنگت صاف نہیں ہے بلکہ سبھی آم کالے ہو گئے ہیں، جس وجہ سے ہم انہیں آم کی سپلائی نہیں کر سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ آم کی قیمت فی کلو کے حساب سے طے نہیں ہوتی بلکہ کیرٹ کے حساب سے طے کیا جاتا ہے۔

ایک کیرٹ میں 24-25 کلو آم ہوتا ہے۔ فی الحال 500-700 فی کیرٹ قیمت مل رہی ہے۔طیب نے بتایا کہ شروعات میں درختوں پر بور بہت اچھا آیا لیکن اصلی دوا نہیں ملنے سے آم کی فصل خراب ہو گئی، جس سے ہمارا زیادہ نقصان ہو گیا ہے۔

باغبان محمد طیب نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہماری ہر ممکن مدد کرے، ہمیں اچھی دوائی فراہم کروائے کیونکہ آم کے باغات میں ہر سال مختلف اقسام کی بیماریاں لگتی ہیں۔ ہم لوگ اپنے طور طریقے سے دوا کا استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

قابل ذکر ہے کہ ملیح آباد کا آم گلف کنٹری میں بہت پسند کیا جاتا ہے لیکن اس بار آم کاشتکاروں کو مایوسی ہی ہاتھ لگی کیونکہ کورونا وائرس کا خطرہ اور آم میں لگنے والی بیماریوں کے سبب مقامی منڈیوں میں ہی آم فروخت کیا جا رہا۔ ان پٹ )