کشمیر: کانگڑی سرد ماحول کو گرم کرنے والا روایتی نسخہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-12-2022
کشمیر: کانگڑی سرد ماحول کو گرم کرنے والاروایتی  نسخہ
کشمیر: کانگڑی سرد ماحول کو گرم کرنے والاروایتی نسخہ

 

 

 آواز دی وائس، سری نگر

جب جب سردی کا موسم آتا ہے اور بات کشمیر کی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ایک اہم چیز بھی جڑ جاتی ہے۔ جس کو لوگ عرف عام میں 'کانگڑی' کہتے ہیں۔ دنیا اگرچہ اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی ہے، تاہم اب وادی کشمیر میں کانگڑی کا استعمال قدیم طرح سے ہی ہو رہا ہے۔ وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے چرارشریف میں جہاں علمدار کشمیر حضرت شیخ نور الدین نورانی (رح) کی زیارت گاہ کا مسکن ہونے کے باعث ایک روحانی مرکز ہونے کی حیثیت سے شہرت کا حامل ہے وہیں اس علاقے کی کانگڑی اپنی منفرد ساخت کے سبب وادی کے قرب و جوار میں مشہور ہے۔

بتادیں کہ وادی کشمیر میں موسم سرما کے دوران سردیوں سے بچنے کے لئے صدیوں سے ’کانگڑی‘ کا استعمال کیا جاتا ہے اوراگرچہ یہاں سردی کے ایام میں گرمی  حاصل کرنے کے لیے مختلف الیکٹرانک آلات موجود ہیں،اس کے باوجود کانگڑی اپنا وجود پورے آب و تاب کے ساتھ قائم رکھے ہوئی ہے۔

کیسے بنتی ہے کانگڑی

کانگڑی بیدکی لڑکی سے بنائی جاتی ہے۔  آس پاس کے جنگلات سے بید کی لکڑی جمع کی جاتی ہیں یا کسانوں سے خریدی جاتی ہیں، پھر اسے ابال کر نرم کیا جاتا ہے اور ہاتھ سے بنے ایک دھاردار آلہ (جسے مقامی طور پر چپّو کہتے ہیں؛ لکڑی کے دو موٹے ڈنڈے ایک دوسرے کے درمیان سے گزرتے ہوئے، زمین میں گڑے ہوئے) کا استعمال کرکے اسے صاف کیا جاتا اور چھیلا جاتا ہے، پھر اسے بھگونے، خشک کرنے اور رنگنے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تیار ہو چکی بید کی ان تیلیوں کو مٹی کے برتن کے چاروں طرف بُنا جاتا ہے۔

اس پورے عمل میں تقریباً ایک ہفتہ کا وقت لگتا ہے، جس کے دوران بید کی تیلیاں پوری طرح سے خشک ہو جانی چاہئیں۔ کانگڑی عام طور پر سردیاں شروع ہونے سے پہلے اگست میں بنائی جاتی ہے، اور کبھی کبھی مانگ کی بنیاد پر، سردیوں کے موسم کے دوران بھی بنائی جاتی ہے، جو فروری کے آخر تک چلتا ہے۔

محنت اور ہنر

پرانے زمانے میں، کشمیر کی کانگڑی صرف مٹّی کا برتن ہوا کرتی تھی – مقامی کمہاروں سے خریدی جاتی تھیں۔ جس کے اوپر بید کا کوئی خول نہیں ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، کچھ کاریگروں نے بید کی تیلیوں کے مختلف ڈیزائنوں کے ساتھ کانگڑی یعنی دیسی ہیٹر کو بنانا شروع کیا۔  جس کی قیمت پرانی کانگڑیوں کے مقابلے زیادہ تھی۔ 

کم لاگت والی کانگڑی کی قیمت اب تقریباً  150روپے ہے اور اسے بنانے میں3-4 گھنٹے لگتے ہیں؛ زیادہ باریک ڈیزائن کے ساتھ بنائی گئی کثیر رنگی کانگڑی۔ جسے بُننے میں3-4 دن لگتے ہیں۔ اس کی قیمت تقریباً 1800روپے تک ہوتی ہے۔ اور اسے بنانے والے کاریگر  1000روپے سے1200روپے تک کا منافع کما لیتے ہیں۔

awazthevoice

کانگڑی کی لکڑی

اس شک نہیں کہ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح وادی کشمیر میں بھی موسم سرما کے دوران گرمی کا بندوبست کرنے کے لئے گرچہ جدید ترین آلات جیسے بجلی اور گیس پر چلنے والے مختلف قسموں کے ہیٹروں کا استعمال کیا جاتا ہے تاہم روایتی کانگڑی ہر گھر میں موسم خزاں کے اختتام کے ساتھ ہی نمودار ہوجاتی ہے اوربیشتر افراد کے ہاتھوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ کشمیر کے شہر وگاوں میں روایتی کانگڑی کا استعمال صدیوں سے کیا جاتا ہے۔

کانگڑی بید کی نرم ٹہنیوں سے بُنی ہوئی ایک مخصوص ٹوکری ہوتی ہے جس میں اسی سائز کی پکی مٹی کی انگیٹھی ڈالی جاتی ہے اور اس انگیٹھی میں دہکتے کوئلے ڈالے جاتے ہیں جو گرمی فراہم کرتے ہیں۔

کانگڑی اور روزگار

وادی کشمیر میں کانگڑی صرف ٹھٹھرتی سردیوں کا مقابلہ کرنے کا ایک موثر اور دیرینہ ہتھیار ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ یہاں کئی علاقوں کے لوگوں کا روز گار بھی جڑا ہوا ہے اور وادی کے کئی علاقوں مخصوص طرز کی کانگڑیاں بنانے کے لئے بھی مشہور ہیں۔ شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کا کلوسہ نامی ایک گاؤں کے تمام گھرانوں کا روز گار کانگڑیاں بُننے کے پیشے پر ہی منحصر ہے۔قریب 300 خاندانوں پر مشتمل اس گاؤں کے لوگ مرد و زن یہاں تک کہ بچوں کو بھی ان دنوں کانگڑیاں بُننے کے کام میں مصروف دیکھا جا رہا ہے۔

اس گاوں سے تعلق رکھنے والے کانگڑی کے کاریگر شمیم احمد گنائی کہتے ہیں  ہمارے گاؤں کے تین سو کنبوں کے لوگ آج کل روزی روٹی کمانے کے لئے کانگڑیاں بنانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ موصوف کاریگر جنہوں نے سال 2006 میں گریجویشن کی ڈگری مکمل کی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں مختلف قسموں اور ڈیزائنوں کی کانگڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا  کہ کشمیر میں مختلف قسموں اور ڈیزائنوں کی کانگڑیاں تیار کی جاتی ہیں لیکن بانڈی پورہ میں تیار کی جانے والی کانگڑیاں اپنی ساخت، بناوٹ اور پائیداری کے لحاظ سے وادی بھر میں مشہور ہیں۔ ان کا کہنا تھاہماری کانگڑیوں کی قسموں میں ساز دار کانگر، بائی پور کانگر،ابایا کانگر اور ڈوبل در کانگر خاص طور پر مشہور ہیں جن کی بازار میں قیمت 250 سے 400 روپیے تک ہے.

awazthevoice

کانگڑی بناتے کاریگر

شمیم احمد نے کہا کہ دولہن کے لئے تیار کی جانے والی مخصوص کانگڑی جس کو یہاں ’مہرن کانگر‘ کہتے ہیں، کی بازار میں قیمت 2 ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مخصوص قسم کی کانگڑی تیار کرنے میں ایک کاریگر کو تین سے چار دن لگتے ہیں۔ بانڈی پورہ کی کانگڑیوں کے علاوہ وادی میں وسطی ضلع بڈگام کے چرار شریف علاقے اور جنوبی ضلع اننت ناگ میں تیار کی جانے والی کانگڑیاں میں کافی مشہور ہیں۔  ان کانگڑیوں کو مخصوص بناوٹ اور خوبصورتی کے باعث کافی پسند کیا جاتا ہے اور رئیس گھرانوں میں ان ہی کانگڑیوں کو دیکھا جاتا ہے۔

بیرون ممالک میں

قارئین کو شاید یقین نہ آئے مگر یہ حقیقت ہے کہ  کانگڑیوں کا مسکن صرف وادی کشمیر نہیں ہے بلکہ یہ یورپ کے مختلف ملکوں میں پہنچ گئی ہیں جنہیں سیاح اپنے عزیزوں کو تحفہ دینے کے لئے یہاں سے خصوصی طور پر لے جاتے ہیں۔ وادی میں بنائی جانے والی کانگڑیاں ملک کی مختلف ریاستوں میں لوگوں کے گھروں میں اسباب زینت و زیبائش کا بھی ایک اہم حصہ بن گئی ہیں۔

کاریگر شمیم کا کہنا ہے کہ جب کانگڑیوں کے مانگ کا سیزن آن پڑتا ہے تو ہمارے گاؤں کے سب لوگ اسی کام میں جٹ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچے بھی اس کام میں لگ جاتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے گاؤں کے لوگوں کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہے۔ ان کا کہنا تھاہماری پڑھی لکھی بیٹیاں بھی اس کام میں ہمارا ہاتھ بٹاتی ہیں کیونکہ ہم تب ہی ان کی مانگ پورا کر سکتے ہیں جب گھر کے سب لوگ ہاتھ بٹاتے ہیں۔

شمیم احمد گنائی نے کہا کہ پمارے گاؤں میں سیزن جو ماہ ستمبر سے ماہ دسمبر تک ہوتا ہے،میں زائد از چار لاکھ کانگڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک مقامی تاجر سے معاہدہ طے ہوا تھا جس نے ہمیں بڑا آرڈر دیا اور کچھ رقم پیشگی بھی دی جس سے ہم کانگڑیاں بنانے کے لئے درکار کچا مواد جیسے ٹہنیاں وغیرہ خریدا۔

ان کا کہنا تھا ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرانا چاہتے ہیں لیکن محدود وسائل ہونے کی وجہ سے اکثر بچوں کو تعلیم ادھوری ہی چھوڑنا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا سفر مکمل نہ کرنے کی وجہ سے ہی ہمارے گاؤں میں سرکاری ملازموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ شمیم احمد نے کہا کہ ہم اس پیشے سے خوش ہیں کیونکہ کم سے کم اس سے ہمارے لئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہوجاتا ہے۔

awazthevoice

کانگڑی کے ساتھ کشمیری بزرگ

انہوں نے کہا کہ ہمارے اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ ہم کوئی کاروبار کر سکیں۔ شمیم احمد کا شکوہ ہے کہ حکومت اس پیشے سے وابستہ لوگوں کی فلاح و بہبودی کی طرف متوجہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا محکمہ جنگلات بھی ہمارے اس پیشے میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے خام مواد مہنگا ہوتا جا رہا ہے جس کو خریدنا ہمارے لئے مشکل سے مشکل تر بن رہا ہے لیکن حکومت کوئی اقدام نہیں کر رہی ہےـ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اجداد سادہ زندگی گذارتے تھے ان کی ضروریات بھی محدود ہی تھیں لیکن آج ہماری ضررویات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی آسمان چھونے لگی ہے۔ انہوں نے کہا بینک والے ہمیں قرضہ بھی فراہم نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایک گارنٹر کی ضرورت ہوتی جس کا ملنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ شمیم احمد نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ کانگڑیاں بنانے والے کاریگروں کے لئے بھی ایک مخصوص اسکیم بنائے تاکہ ان کی بہبودی کی سبیل ہوسکے۔