کشمیر: قومی شاہراہ پر پھنسے ٹرکوں میں سڑے گلے سیب کاشتکاروں کے لیے مستقبل کا عذاب

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 19-09-2025
کشمیر: قومی شاہراہ پر پھنسے ٹرکوں میں  سڑے گلے  سیب کاشتکاروں کے لیے مستقبل کا عذاب
کشمیر: قومی شاہراہ پر پھنسے ٹرکوں میں سڑے گلے سیب کاشتکاروں کے لیے مستقبل کا عذاب

 



دانش علی / سرینگر

کشمیر میں سیب کے کاشتکار بے بسی کے ساتھ دیکھتے رہے کہ ان کی فصل ہائی وے پر پھنسے ٹرکوں میں سڑ رہی ہے۔ جموں-سرینگر قومی شاہراہ کے جو وادی کی واحد ہر موسم میں کھلی رہنے والی سڑک ہے بار بار بند ہونے نے 10,000 کروڑ روپے کی پھلوں کی صنعت کو بحران میں دھکیل دیا ہے۔ستمبر کشمیر کے سیبوں کی کٹائی کا عروج کا موسم ہے، وہ وقت جب کاشتکار دہلی، ممبئی اور دیگر مقامات کے لیے ٹرک لوڈ کرتے ہیں۔ لیکن اس سال، زمین کھسکنے اور اچانک آنے والے سیلابوں نے شاہراہ کو زیادہ تر مہینے کے لیے بند رکھا، جس سے ٹرانسپورٹ نظام مفلوج ہوگیا۔ خراب ہونے والے پھلوں سے بھرے ٹرک کئی دنوں، بعض کئی ہفتوں تک پھنسے رہے، جبکہ بیرونی منڈیوں میں دام گرگئے۔

کسان تباہی کے دہانے پر

سوپور، شوپیان اور ہندواڑہ کے پھل منڈیوں میں جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے جب کاشتکار ٹوٹ گئے۔ سوپور منڈی، جو ایشیا کی دوسری سب سے بڑی پھل منڈی ہے، میں کاشتکار سڑتے ہوئے سیب کے ڈبوں کے پاس بیٹھ کر رو رہے تھے۔ہم تباہ ہو گئے ہیں۔ ہر گھنٹے کی تاخیر ہمیں مزید قرض میں دھکیلتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے شوپیان کے ایک کسان غلام رسول کی  آنکھوں میں آنسو  آگئے تھے ۔کولگام کے ایک اور کاشتکار محمد اشرف نے کہا کہ  جنوبی اور شمالی کشمیر میں ہزاروں خاندانوں کے لیے، سیب آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ ایک ہی ناکام سیزن کا مطلب ہے کہ قرضے ادا نہیں ہوں گے، بچوں کی تعلیم متاثر ہوگی، اور گھرانے مالی بدحالی میں ڈوب جائیں گے۔ یہ صرف کاروبار کی بات نہیں ہے،یہ ہماری بقا ہے۔ کئی چھوٹے کاشتکاروں نے کیڑے مار دوائیوں، کھاد اور پیکنگ کے سامان کے لیے بھاری قرضے لیے تھے، اچھی آمدنی کی امید پر۔ لیکن اب وہ تباہ کن نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں۔ صرف سوپور میں ہی کاشتکاروں نے سینکڑوں کروڑ کے نقصانات کا اندازہ لگایا ہے۔

غصہ سڑکوں پر

مایوسی جلد ہی غصے میں بدل گئی۔ پیر کے روز، سیب کے کاشتکاروں اور تاجروں نے سوپور اور ہندواڑہ میں بڑے مظاہرے کیے، حکومت پر “مجرمانہ غفلت” کا الزام لگایا۔ وادی بھر کی پھل منڈیوں نے یکجہتی میں دو روزہ ہڑتال منائی۔صدر فیاض احمد ملک، جو عام طور پر کاکا جی کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے مظاہرین سے سخت الفاظ میں خطاب کیا۔
اگر وزیر اعلیٰ پھلوں کے ٹرکوں کے لیے محفوظ راستہ یقینی نہیں بنا سکتے، تو انہیں عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر کچھ نہیں کر سکتے تو استعفیٰ دیں، انہوں نے گرجدار آواز میں کہا، یہ وارننگ دیتے ہوئے کہ اگر 48 گھنٹے کے اندر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو وادی گیر ہڑتال ہوگی۔پلوامہ کے کسانوں کی ایک ویڈیو، جس میں وہ اپنی سڑی ہوئی پیداوار کو ضائع کر رہے ہیں، ایکس پر پوسٹ کی گئی۔کولگام میں ایپل فارمرز فیڈریشن کے صدر ظہور احمد نے حکومت پر زور دیا کہ وہ متبادل ٹرانسپورٹ راستے بنائے۔ باغبانی کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کسی بھی قسم کی رکاوٹ ہزاروں خاندانوں کو متاثر کرتی ہے۔

محدود ریلیف، باقی زخم

حکام نے مختصراً مغل روڈ کو متبادل کے طور پر آزمایا، لیکن اس کی تنگ اور خطرناک ڈھلوان بھاری ٹرکوں کو سنبھال نہیں سکی۔ انڈین ریلویز نے بھی دہلی تک سیب پہنچانے کے لیے خصوصی پارسل ٹرینیں متعارف کرائیں، لیکن وہ صرف ایک چھوٹا حصہ ہی لے جا سکیں۔کشمیر ویلی فروٹ گروورز اینڈ ڈیلرز یونین کے چیئرمین بشیر احمد بشیر نے کہا کہ یہ بالکل ایسے تھا جیسے جنگل کی آگ پر پانی کی بالٹی ڈال دی گئی ہو۔تقریباً تین ہفتوں بعد، 17 ستمبر کو شاہراہ آخر کار بھاری گاڑیوں کے لیے کھل گئی، اور ٹریفک پولیس نے پھلوں سے بھرے ٹرکوں کو ترجیح دی۔ لیکن بہتوں کے لیے یہ ریلیف بہت دیر سے آیا۔نقصان ہو چکا ہے۔ ہمارے سڑتے ہوئے سیبوں کا معاوضہ کون دے گا؟ محمد یوسف نے کہا، جو ایک ٹرک ڈرائیور ہیں اور رامبن کے قریب 19 راتیں پھنسے رہے۔جیسے جیسے ٹرک آہستہ آہستہ وادی سے نکلنے لگے، اس موسم کے زخم باغات اور گھروں میں نقش ہو گئے۔ کاشتکاروں کے لیے نقصان صرف مالی نہیں بلکہ ذاتی بھی ہے،ایک سال کی محنت اور امید کا مٹ جانا۔سردیوں کے قریب آنے کے ساتھ، کئی لوگ سوچتے ہیں کہ اگلی فصل تک وہ کیسے زندہ رہیں گے۔ سڑتے ہوئے پھلوں کے کریٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے کہا کہ شاہراہ اب کھل گئی ہے، لیکن ہمارا مستقبل بند ہو گیا ہے۔