چھاپے کا کپڑا: بہار میں دلہن کا ایک روایتی لباس

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 22-11-2021
چھاپے کا کپڑا: بہاری دلہن کی خاص زینت
چھاپے کا کپڑا: بہاری دلہن کی خاص زینت

 

 

سراج انور/پٹنہ

ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کھانے پینے، رہن سہن، لباس، تہذیب و ثقافت کی ایک الگ پہچان ہے، یہاں تک کہ یہاں کی ہر ریاست اور علاقے میں الگ الگ روایات ہیں، حتیٰ کہ ہر مسلک و مکتبہ فکر ، فرقہ و مذہب کے لیے الگ الگ لباس ہیں۔

ریاست بہارکےمسلم گھرانوں میں شادی کے موقع پرعام طور پر چھاپے کا کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم فیشن اور جدید دور میں بھی یہ لباس اپنی شناخت نہیں کھو سکا ہے، چنانچہ مسلمانوں کے اشرافیہ طبقے میں اس کے بغیر شادی نہیں ہوتی،بلکہ ریاست بہار میں مسلم خاندانوں کی شادی اس کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔

اس کی خاص اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کپڑوں پر چھاپے یا پرنٹ کا کام رنگریز برادری کے لوگ کرتے ہیں، جو کہ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اور اسے زیب تن اشرافیہ طبقے کے لوگ کرتے ہیں۔ گویا کہ چھاپے کا یہ کپڑا ذات سے بالاتر ہو ایک برادری کو دوسرے سے جوڑنے کا کام کرتا ہے۔

صدیوں پرانی تاریخ

 ریاست بہار میں دولہے کی طرف سے دلہن کو بھیجے گئے کپڑے عموماً اس لباس کے ہوتے ہیں جودلہن شادی کے دن پہنتی ہیں۔اس کپڑے کو پہن کر ہی نکاح کیا جاتا ہے۔اس علاقے میں چھاپے کا کام انیسویں صدی عیسوی سے ہو رہا ہے۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم فرانسس بکانن پیشے سے ڈاکٹر تھے، وہ علاج و معالجہ کے لیے ہندوستان آئے تھے۔

انہوں نے 1811 سے 1812 کے درمیان اپنے رسالے میں ایک مضمون لکھا جس میں چھاپوں کا مختصراً تذکرہ کیا گیا تھا۔ بکانن نے ریاست بہار کے ضلع گیا کے علاوہ مختلف اضلاع کا دورہ کیا تھا۔ پرانی روایت کے مطابق مسلمان خاندان صرف شادی بیاہ کی تقریبات میں چھاپے کے کپڑے ہی پہنتے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے فیشن کی وجہ سےاس کپڑے کو پہننے کا رواج کچھ کم ہوا ہے لیکن آج بھی اس نے اپنی شناخت برقرار رکھی ہوئی ہے۔

aw

دلہن کا لباس

روایت کےمطابق دولہے کےگھروالےدلہن اوراس کے رشتہ داروں کو مختلف تحائف دیتے ہیں جسے بہار کی زبان میں 'ڈالا' کہا جاتا ہے۔'ڈالا' کا کپڑا بھی چھاپے کا ہوتا ہے ۔ لکڑی سے بنے ڈیزائن سے ساڑی، سوٹ سلوار، غرارہ، شرارہ، لہنگا اور دیگر لباس بھی چھاپے کا ہوتا ہے، جسے مسلم دلہن اپنی شادی کے دن پہنتی ہیں، اس کے علاوہ باکس، چادر اور پردے بھی بنائے جاتے ہیں۔

شادی کےدن دولہلے کے ہاتھ میں چھاپےسے تیارکردہ رومال بھی رکھنے کا رواج بھی ہے۔ رنگریز جاگرن منچ کے قومی کنوینر مستقیم اختر رنگریز بتاتے ہیں کہ چاندی کے حصے میں چھاپہ جسمانی اور طبی نقطہ نظر سے بہت اہم ہے، یہ پہننے والے کو توانائی بخشتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر مقبولیت

چھاپے کے کپڑے نہ صرف بہار میں بلکہ ملک اور بیرون ملک بھی مقبول ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں میں رہنے والے بہاری مسلمان خاندان شادیوں میں صرف چھاپے والے کپڑے ہی خریدتے ہیں۔ چھاپے کے کاروبار سے وابستہ محمد مصطفیٰ اور محمد وسیم کا خیال ہے کہ شادی کی تقریبات ان کپڑوں کے بغیر ادھوری ہے۔ اسے تیار  کرنے کے بعد اسے وہ نہ صرف ریاست کے بازاروں میں بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں میں آباد بہاری خاندانوں کو بھیجتے ہیں۔

مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ تقسیم کے دوران کچھ بہاری خاندان پاکستان ہجرت کر گئے تھے لیکن وہ اب بھی اپنی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، کورونا وبا سے قبل ان کے کپڑے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بھیجے جاتے تھے۔انہوں نے کہا کہ بدلتے فیشن کے ساتھ ڈیزائن میں بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ وسیم کے مطابق شادیوں کے سیزن میں یہ  کپڑے بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔

پرنٹ ڈریس کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

چھاپے کا کام کیمیکلزکے ذریعہ ہوتاہے۔ کاریگر لکڑی کے ڈھانچے پر بنے پھولوں کا ڈیزائن کپڑوں پر چھاپتے ہیں۔ گرم پانی میں گم اور فیویکول کے علاوہ کچھ کیمیکلز بھی ملائے جاتے ہیں۔اسے لکڑی کے ڈھانچے پر لگایا جاتا ہے اور کپڑوں پر نقوش کیا جاتا ہے۔ کپڑے پر پرنٹ کرتے وقت ان کو اوپر رکھا جاتا ہے جو کہ کاغذ کی طرح سلور رنگ کا ہوتا ہے،پھراسے دبایا جاتا ہے۔ اس پر دباؤ اس طرح لگایا جاتا ہے کہ تہہ پوری طرح چپک جاتی ہے۔

چھاپے کا کپڑا دو تین بارکی دھولائی کے بعد پھیکا پڑنے لگتا ہے تاہم چمک باقی رہتی ہے۔ کاریگرمحمد نوشاد کا کہنا ہے کہ وہ کیمیکل سے کام کرنے کے عادی ہیں، ایک ساڑی پرنٹ کرنےمیں پانچ سے چھ سو روپے خرچ ہوتے ہیں جب کہ ایک ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بازار میں اس کی مانگ میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم ہر عمر کی خواتین کےلیے کپڑے تیارکرتے ہیں۔ چھاپے کے کپڑے کی قیمت دیگر کپڑوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ضلع گیا کے نیو کریم گنج کی رہائشی غزالہ پروین کہتی ہیں کہ چھاپے کے کپڑوں سے دلہن کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ایک صنعت کی شکل میں

ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے اس کاروبار کو معدوم ہونے سے بچانے اور اس کی ترقی کے لیے رنگریز آرٹیسن ڈیولپمنٹ کمیٹی بھی بنائی ہے۔ کمیٹی کے ایک اہم رکن مستقیم رنگریزنے آواز دی وائس کو بتایا کہ اگر یہ کمیٹی پوری طرح کام کرنا شروع کر دے تو اس پیشے سے وابستہ افراد کو روزی روٹی کے لیے دردر بھٹکنا نہ پڑے گا۔ یہ کمیٹی 17 ستمبر 2019 کو تشکیل دی گئی تھی تاکہ لوگوں کو خود انحصار بنایا جا سکے۔ مستقیم کا کہنا ہے کہ چھاپے کے کاروبار کی حوصلہ افزائی اور اس کی اپنی مارکیٹ کی ضرورت ہے، اسے کھادی گاؤں کی صنعت کی طرز پر صنعت کا درجہ ملنا چاہیے۔

انہوں نےکہاکہ اپنی چیزیں کھلے بازار میں فروخت کرنے کے لیے پرنٹ کلاتھ مال قائم کیا جائے، کمیٹی کے قیام کا مقصد کاٹیج انڈسٹری کے کاروبار کو بازار میں کھڑا کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کرنا تھا۔