خوابوں کی تصویر میں چاکلیٹی رنگ: ایک کشمیری نوجوان کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-02-2021
سیف اللہ صوفی اپنے  تخلیقی شاہکار کے ساتھ
سیف اللہ صوفی اپنے تخلیقی شاہکار کے ساتھ

 

 انو راے/ سری نگر

وقت کا بے رحم پنجہ کبھی کبھی آپ کے اعصاب اور قوت ارادی پر اس طرح حملہ آور ہوتا ہے کہ آپ اپنے خوابوں کے تاج محل کو اپنے ہی ہاتھوں منہدم کر دیتے ہیں- نا موافق حالات آپ کو عام طور پر دوبارہ خواب دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتے- ان سب پر مستزاد فضا گولہ بارود کی بو سے زہر آلود بھی ہو چکی ہو اور علیحدگی پسند قوتوں کا زور نوجوانوں کے اذہان میں صحیح اور غلط کی تفریق کو مبہم بھی کر چکا ہو ۔ نوجوان صحیح راستے کا انتخاب کرنے کی بجائے غلط راستے پر گامزن ہونے لگیں ، ایسے میں اپنے مقصد کے حصول کے لئے جدو جہد کو جاری رکھنا کسی آہنی اعصاب کے مالک کے ہی بس کی بات ہے- ایسے میں ایک مرد آہن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے وادی کشمیر کی مٹھاس ملک کے کونے کونے تک پہنچانی ہے اور پھر تقدیر کی ڈھال اسکی محافظ بن جاتی ہے ۔

سری نگر کے سیف اللہ صوفی اس حقیقت کے مصداق بن کر سامنے آے ہیں ۔ سیف اللہ صوفی 30 سال کے نوجوان ہیں- وہ شالیمار چاکلیٹ نامی برانڈ کے مالک بھی ہے۔ ان سے گفتگو کرنے کے بعد آپ کوپہلا تاثریہی ملے گا کہ اپنے خوابوں کو کبھی بھی ادھورا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کبھی ہار نہیں ماننی چاہئے چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نا ہوں- صوفی کہتے ہیں کہ ہمارا تعلق ایسے معاشرے سے ہے جہاں تعلیم کے میدان میں اول آنا ہی کامیاببی کا معیار ہے۔ اگر آپ امتحان میں فرسٹ کلاس نہیں لاتے ہیں تو پھر آپکے گھر والوں کے علاوہ ، رشتے دار بھی یقین کرنے لگتے ہیں کہ آپ زندگی میں کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ ایسے منفی ماحول میں آپ کے لئے آگے بڑھنا خاصا مشکل ہے۔

cake

چاکلیٹ کے رنگ 

اپنے کالج کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے سیف اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی گریجویشن تین سال کے بجائے چھ سال میں مکمل کی کیونکہ میرا دل مطالعہ میں نہیں لگتا تھا - میرا شغف چاکلیٹ بنانے کے لئے نئی ترکیبیں ایجاد کرنے کی طرف تھا۔ مجھے تجارت کی چیزیں سمجھ نہیں آتی تھیں ۔ اس کے بجائے میں چاکلیٹ بنانے کی ریسیپی کی جانب زیادہ مائل ہوتا تھا۔ لیکن آس پاس کے لوگوں نے میری ناکامی کا مذاق اڑایا۔ گھر والوں نے کئی بار کہا کہ بیکری کے خاندانی کاروبار میں لگ جاؤ لیکن دل کہا کرتا تھا کہ جو خواب آپ نے خود بنے ہوں اسے مت چھوڑو۔ ایسی ہی ایک غمگین شام سیف اللہ نے کچھ فیصلہ کیا۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ میں نے اس دن ٹھان لیا کہ میں دہلی جاؤں گا اور چاکلیٹ بنانے کا کورس کروں گا۔

میں نے چاکلیٹ بنانا سیکھ تو لیا تھا لیکن میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں۔ پھر ایک دن میں نے اپنے گھر کے باورچی خانے میں چاکلیٹ بنانا شروع کیا۔ میں نے شوق سے کچھ چاکلیٹ بنائیں اور آس پاس کے لوگوں کو ٹیسٹ کرایا۔ ہر کسی نے اس کی تعریف کی - پھر وہاں سے کچھ حوصلہ ملا۔ پھر میں نے اپنے کچھ دوستوں سے قرض لیا اور شالیمار چاکلیٹ کے نام سے چاکلیٹ بیکنگ کی چھوٹی سی شروعات کی ۔ میں نے کسی اور کمپنی کے ذائقہ کی نقل کرنے کے بجائے نئے ذائقہ پر کام کرنا ضروری سمجھا۔ جب کام ہو چل نکلا تو سیف اللہ نے ذاتی نوعیت کا چاکلیٹ بنانا شروع کیا۔ لوگوں نے اپنی شادی کی سالگرہ کے موقع پر آرڈر دینا شروع کردیئے۔

اسی وقت جب وادی میں مقامی فٹ بال میچ چل رہے تھے ، سیف اللہ نے فیصلہ کیا کہ وہ فاتح ٹیم کو چاکلیٹ فٹ بال تحفے میں دیں گے۔ اس کے بعد تو راستے کھل گئے۔ آج سیف اللہ کے پاس آن لائن آرڈر بھی آرہے ہیں۔ اور اس کا برانڈ شالیمار چاکلیٹ بھی کافی مشہور ہے۔ سیف اللہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ کچھ ہی دنوں میں مجھے ہال مارک ملنے والا ہے۔

سیف اللہ صوفی کی کہانی ان لاکھوں نوجوانوں کو اپنے لئے خواب منتخب کرنے اور اپنی طاقت کو پہچاننے کی ترغیب دے رہی ہے۔ اگر صوفی چاہتے تو وہ کنبہ کے افراد کی مدد لے سکتے تھے لیکن انہیں معاشرے کے ان تمام نوجوانوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر آپ کے پاس پیسہ نہیں ہے اور آپ معاشی طور پر مضبوط نہیں ہیں تو پھر بھی آپ اپنی طاقت پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔