ہریانہ کی خواتین کا فن چنگیری ۔ توجہ کا طالب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
ہریانہ کی چنگیری
ہریانہ کی چنگیری

 

     ۔۔۔   میوات کی تاریخی وراثت چنگیری، بیجنا اور گودری کا ہنر توجہ کا طلبگار ہے۔
     ۔۔۔   چنگیری اور ڈلیوں کو یہ خواتین خاص طور پر ساون کے مہینے میں بناتی ہیں


یونس علوی/میوات 
     یوں تو تعلیم کے میدان میں میوات کی خواتین کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں، لیکن آرٹ کی فیلڈ میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ میوات کی یہ ناخواندہ خواتین اپنی صلاحیتوں کے دم پر دنیا بھر میں منفرد مقام بنا چکی ہیں۔ 26 سال پہلے یونیسیف کے ممبران نے ان خواتین کی پذیرائی کرکے ان کے فن کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اگر حکومت میوات کی تاریخی وراثت چنگیری، بیجنا اور گودری کی طرف دھیان دے، تو یہ آرٹ دیہی صنعت کے روپ میں پنپ سکتی ہے۔ اس طرح میوات کی ہزاروں بیروزگار خواتین کو روزگار سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔  
     چنگیری اوربیجنا کی 26 سال پہلے ڈی آر ڈی اے گڑگاؤں نے نمائش بھی لگائی تھی۔ واضح رہے کہ یہ آرٹ گیہوں کی بالی سے تیارکی جاتی ہے۔ نمائش میں شرکت کرنے والے ملک اور غیر ملک سے آنے والے متعدد افراد اس آرٹ کی خوب تعریف کر چکے ہیں۔یہاں یہ امر حیرت کا باعث ہے کہ میوات میں خواتین کی شرح خواندگی صرف پانچ  فیصد ہے۔ زیادہ تروالدین بچیوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے کے بجائے مساجد اور دینی مدارس میں مذہبی تعلیم دلانا مناسب سمجھتے ہیں۔ خوش نصیب بچیاں بھی صرف پرائمری تک کی ہی تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔ حالانکہ اشرافیہ کی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اونچے عہدوں پر بھی فائزہورہی ہیں۔ لیکن ایک کثیر تعداد میں لڑکیاں نا خواندہ ہی رہ جاتی ہیں۔ 
   عزیمت کی چٹان بنی یہ میوات کی بیٹیاں دوسرے گھریلو کاموں کے علاوہ اپنے اندر چھپے ہوئے آرٹ کے لئے بھی وقت نکال لیتی ہیں۔ان بچیوں کے آرٹ کا شاہکار ان کی نا خواندگی کبھی ظاہر ہونے نہیں دیتا۔چنگیری,بیجنا اور ڈلیوں میں گندم کی ڈالیوں سے ہندی اور انگریزی میں نام لکھنا، پھول اور پرندوں کی تصاویر بنانا ان کے بایئں ہاتھ کا کھیل ہے۔روٹی رکھنے کے لئے بنائی جانے والی چنگیری اور ہاتھ کا پنکھا بنانے کی تیاری میں یہ باصلاحیت خواتین جون سے ہی متحرک ہو جاتی ہیں۔ گیہوں کی فصل کے کٹنے کے دوران یہ بالیوں کے ایک حصّے کو
محفوظ کر لیتی ہیں، اور انہیں اپنے فنون کی مدد سے خوبصورت رنگوں سے مزین کر دیتی ہیں۔  
     چنگیری اور ڈلیوں کو یہ خواتین خاص طور پر ساون کے مہینے میں بناتی ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ کاشت کاری کی مصروفیات سے فارغ ہو چکی ہوتی ہیں۔دوسری وجہ ہے کہ  برسات کے باعث بالیوں میں نمی آجاتی ہے، جس سے یہ ٹوٹتی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ خواتین گھر کے پھٹے پرانے کپڑوں سے دری نما گودرئی بنانے میں بھی ماہر ہیں۔جمیلہ، رخسانہ، ثمینہ اور بسم اللہ اور ایسی دیگر متعدد خواتین ان فنون میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان دیسی مصنوعات کا استعمال گھریلو ضروریات کے لئے کیا جاتا ہے۔ انہیں تحفے تحائف کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔    
     انہوں نے بتایا کہ چنگیری بنانے میں آٹھ سے دس دن لگ جاتے ہیں۔ اگر انہیں پورا دن دیا جائے تو یہ خواتین ایک چنگیری ایک سے دو دن میں تیار کر سکتی ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ چنگیری کی بہترین قسم کے لئے دیسی گیہوں کی بالی سب سے مناسب ہوتی ہے، کیونکہ نہ تو وہ ٹوٹتی ہے نہ ہی وہ چھوٹی ہوتی ہیں۔میوات میں اب دیسی گیہوں بہت کم بویا جاتا ہے۔ اس وجہ سے دیسی گیہوں کی بالیاں ملنا اب مشکل ہو گیا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صنعت کاروں نے بازار میں پلاسٹک کی بالیاں متعارف کردی ہیں۔ ان مصنوعی بالیوں سے چنگیری تو بن جاتی ہے لیکن کوالٹی نہیں ہوتی۔
      یہاں یہ یاد دلانا مناسب ہوگا کہ 1989 کے دوران یونیسف کی ایک ٹیم نے میوات کا دورہ کیا۔ انہوں نے اس انوکھے اور منفرد آرٹ کی خوب ستائش کی اور  ٹیم اسے اپنے ساتھ بھی لے گئی۔لگ بھگ دس سال قبل برطانیہ کے ایک ادارے نے میوات کے نگینہ نامی بلاک کے 25 دیہاتوں کا دورہ کیا اور یقین دہانی کرائی کہ اس بے نظیر آرٹ کے شاہکار کو لندن کے بازاروں میں بیچا جائیگا۔میوات کی ایس ای ڈی ایس  نامی ادارے کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبد العزیز نے سال 1993-94 میں ڈی آر ڈی اے گڑگاؤں کی جانب سے اس منفرد آرٹ کے فروغ کے لئے میوات کی 35 خواتین کو سپیشل ٹریننگ دی۔
     ڈی آر ڈی اے نے اس دوران یہ یقین دلایا تھا کہ ٹریننگ کے بعد بڑی تعداد میں مصنوعات بنائی جائیں گی اور انہیں غیر ممالک میں بیچا جا ئیگا ۔ اس کے بعد سال 1996-97 میں گڑگاؤں میں ایک نمائش بھی منعقد کی تھی۔ نمائش میں آنے والوں نے نہ صرف ان کی تعریف کی بلکہ مصنوعات کی منہ مانگی قیمت بھی ادا کی۔میوات کے دین محمد ماملیکا، عمرمحمد، جاوید سرپنچ بادلی اور شمشیر لوہنگا کلا کہتے ہیں کہ حکومت اور انتظامیہ اس جانب توجہ دے تو میوات کا یہ آرٹ ایک دیہی صنعت کی شکل لے سکتاہے۔ اس سے میوات کی ہزاروں خواتین کو روزگار مل سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک چنگیری میں آسانی سے 100  سے 150 روپئے تک کمائے جا سکتے ہیں۔