افغانستان پر آج سے دو روزہ علاقائی سلامتی ڈائیلاگ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-11-2021
افغانستان پر آج سے دو روزہ علاقائی سلامتی ڈائیلاگ
افغانستان پر آج سے دو روزہ علاقائی سلامتی ڈائیلاگ

 

 

آواز دی وائس :منصور الدین فریدی 

'افغانستان پر ہندوستان 10-11 نومبر کو علاقائی سلامتی ڈائیلاگ' کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ میٹنگ قومی سلامتی کے مشیروں (این ایس اے) کی سطح پر ہوگی اور اس کی صدارت این ایس اے اجیت ڈوبھال کریں گے۔وزارت امور خارجہ کے مطابق ‘اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں افغانستان کی موجودہ سیکیورٹی اور عوام کی مدد کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ امن، استحکام اور خوش حالی کو فروغ ملے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 7 ممالک نے ان مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کی ہے جن میں ایران، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔

ہندوستان کےذہن پر افغانستان سے متعلق سلامتی کے خدشات بہت زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے نقطہ نظر پر علاقائی اسٹیک ہولڈرز اور اہم طاقتوں کی کانفرنس منعقد کرنے کی پہل کی ہے۔ اجلاس میں افغانستان کے اندر اور سرحدوں کے پار دہشت گردی کے خدشات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ہندوستان کا خیال ہے کہ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو افغانستان میں حقانی نیٹ ورک، داعش اور دیگر گروپوں کے سبب فروغ مل سکتا ہے۔ جبکہ اس سے پڑوسی ممالک کو زبردست خطرہ لاحق ہوگا۔

ہندوستان کی اس پہل پر سرحد پار کھلبلی ہے ،سفارتی بوکھلاہٹ عیاں ہورہی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغانستان کا سب سے بڑا ہمدرد پاکستان ہی ہے اور چونکہ اس اجلاس میں افغانستان مدعو نہیں ہے تو پاکستان بھی شرکت نہیں کرے گا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کے نمائندے کو مدعو نہ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیاہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں ابتک کسی نے افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔اس لیے اس قسم کی دعوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

کیوں ہے اہم اجلاس

امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں بڑی تبدیلیوں نے عالمی برادری کو تشویش کا شکار کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی کسی بھی سیاسی پیش رفت کا پورے علاقے پر اثر پڑتا ہے اور ہندوستان بھی اس سے الگ نہیں رہ سکتا۔ کسی دوسرے ملک کی طرح ہندوستان بھی ایک ایسے مستحکم افغانستان کو ترجیح دے گا جو دہشت گرد گروپوں کی ' ریشہ دوانیوں‘ سے پاک رہے۔ افغانستان کی سرزمین کو ہندوستان کے خلاف دہشت گرد گروپوں کی تربیت کے لیے استعمال کیے جانے کا خدشہ بھی برقرار ہے۔ اس لیے ہندوستان کی خواہش ہوگی کہ افغانستان میں نئی حکومت کی طرف سے اسے یہ واضح اشارہ ملے کہ طالبان حقیقی طورپر ہندوستان کے حامی یا دوسرے لفظوں میں استحکام کے حامی ہیں۔

پاکستان پڑا تنہا

 ہندوستان کی اعلیٰ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ، قومی سلامتی کونسل سیکرٹریٹ نے میٹنگ کے انعقاد میں قیادت کی ہے۔ افغانستان کے پڑوسیوں جیسے پاکستان، ایران، تاجکستان اور ازبکستان اور دیگر اہم کھلاڑیوں بشمول روس اور چین کو دعوت نامے بھیجے گئے تھے۔پاکستان کے لیے تو یہ ناقابل برداشت تھا جس کے سبب بہت جلد سرحد پار سے انکار بھی ہوگیا اور ہندوستان کی ایک مثبت پہل پر کیچڑ بھی اچھال دیا گیا۔بہانہ یہ بنایا گیا کہ اگر طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا تو پاکستان بھی شرکت نہیں کرے گا۔

دوسرا اہم مہمان چین تھا ،یقینا چین نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اس اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی لیکن اہم بات یہ ہے کہ چین نے پاکستان کی طرح کسی طرح کے الزامات عائد نہیں کیے ۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا کہ مذاکرات کے شیڈول کو وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کے لیے مذاکرات میں شرکت کرنا دشوار ہے۔ذرائع کے مطابق بیجنگ نے تاہم کہا ہے کہ وہ باہمی چینلز کے ذریعہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ برقرار رکھے گا۔

پہلے ہوچکے ہیں دو اجلاس 

’ریجنل سیکیورٹی ڈائیلاگ‘ نامی اس فارمیٹ پرایران میں 2018 اور 2019 میں دو اجلاس ہو چکے ہیں، جن میں چین نے شرکت کی تھی، لیکن پاکستان کو اس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ہندوستان میں تیسری میٹنگ اس سے قبل کوویڈ 19 کی وبا کی وجہ سے نہیں ہو سکی تھی۔ اس بار پاکستان کو بھی دعوت نامے دیے گئے، لیکن پاکستانی این ایس اےمعید یوسف نے شرکت کرنے سے انکار کر دیا،ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ افغانستان میں حالات کو خراب کرنے والا امن قائم کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔اس میں پاکستان کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ ہی عیاں ہوئی کیونکہ مرکزی ایشیا ئی ممالک نے اجلاس میں شرکت کی منظوری دیدی ہے۔ جسے پاکستان کی افغانستان پر متبادل سفارتی مہم کی ناکامی مانا جاسکتا ہے۔ 

پہل پر جوش ردعمل

ہندوستانی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان پر ہندوستان کی پہل پر زبردست اور پر جوش ردعمل ہوا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ روس اور ایران نے شرکت کی تصدیق کی ہے۔ذرائع کے مطابق یہ پہلا موقع ہو گا کہ تمام وسطی ایشیائی ممالک نہ صرف افغانستان کے قریبی پڑوسی اس فارمیٹ میں شرکت کریں گے۔ پرجوش ردعمل افغانستان میں امن اور سلامتی کو فروغ دینے کی علاقائی کوششوں میں ہندوستان کے کردار کی اہمیت کا مظہر ہے۔یہی بات کہیں نہ کہیں پاکستان کو پریشان کررہی ہے۔ جو ابتک پردے کے پیچھے سے سازشوں کے جال بنتا رہا ہے۔ 

وزارت خارجہ کے مطابق  ہندوستان کے افغان عوام کے ساتھ روایتی طور پر قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس نے افغانستان کو درپیش سکیورٹی اور انسانی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ بین الاقوامی کوششوں کی اپیل کی ہے۔مجوزہ میٹنگ اسی سمت میں ایک قدم ہے۔اس اعلی سطحی مذاکرات میں افغانستان میں حالیہ پیش رفت سے پیدا صورت حال کے پس منظر میں سکیورٹی کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس میں متعلقہ سکیورٹی چیلنجز اور امن، سلامتی اور استحکام کے فروغ کے لیے افغان عوام کی مدد کرنے کے اقدامات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔