پاکستان ہے یوگا کی جنم بھومی ۔ یوگی ریاض کھوکھر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
 کھوکھرریاض
کھوکھرریاض

 

 

 پاکستان یوگا کاؤنسل‘‘ کے پیٹرن انچیف، محمد ریاض کھوکر کا انٹرویو’’

۔ یوگ کی جنم بھومی موہنجوداڑو ہے ۔ یوگا ‘پاکستانی‘ ہے۔ 

۔ یوگا کو محلوں سےمحلوں تک پہنچایا

۔ یوگا اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں

۔ ہندو ایجنٹ اور را کا ایجنٹ ہونے کے الزامات لگے

۔حکومت سے عوام تک سب نے تسلیم کرلیا یوگا کو

 پاکستان میں یوگا اور یوگی۔ آپ یقینا چونگ جائیں گے کیونکہ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں ہورہا ہے یوگا۔ کیا امریکہ، کیا یورپ اور کیا عرب دنیا ۔سب نے کھلے دل سے گلے لگایا ہے یوگا کو۔مگر پڑوس میں یوگا نے کس طرح پیر پھیلائے ہیں اور یوگ کو پاکستان کے معاشرے نے کس تیزی کے ساتھ اپنایا ہے اس کے بارے میں جان کر آپ یقینا حیران ہوجائیں گے۔

سب سے پہلے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں یوگ کے متعدد گرو ہیں جن میں ایک ہیں ’ریاض کھوکر‘۔ جو قومی گرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ جنہوں نے پچھلے 18 سال کے دوران پاکستان کے گھر گھر پہنچا دیا ہے یوگا۔لیکن ان کے’گرو‘ پروفیسر واثق محمد وہ شخصیت تھے جنہوں نے یوگا کو گھر گھر پہنچانے کا خواب دیکھا تھا،جس کےلئے پہل کی تھی۔لاہور میں ہر روز صبح کو لوگوں کو یوگا کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ان کے انتقال کے بعد دو شاگردوں ریاض کھوکر اور انجینیر اعظم نے ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔

 بلکہ اگر یہ کہیں تو زیادہ درست ہوگا کہ پاکستان میں یوگا کو ’خاص‘سے ’عام ‘ بنانے کا سہرا ہے اس سوچ کے سر جاتا ہے جنہیں پاکستان پروفیسر واثق محمد کے نام سے جانتا ہے،اس سوچ کو ریاض کھوکر نے’پاکستان یوگا کاونسل’کے پرحم تلے پروان چڑھایا۔وہ اس تنظیم کے بانی بھی ہیں اور پیٹرن انچیف بھی۔ جن کو عوام کے ساتھ حکومت نے بھی تسلیم کیا۔انہیں پاکستان کا دوسرا بڑا شہری اعزاز ’لیجنڈ ایوارڈ‘ سے نوازا۔

 پاکستان یوگا کاونسل اور دیگر تنظیموں کی اس تحریک نے لاہور سے جو یوگا کا طوفان اٹھا اور اب پاکستان کے بیشتر شہروں میں پہنچ چکا ہے۔ کاونسل کے تقریبا 200 سینٹر قائم ہیں جو مفت خدمات دے رہے ہیں۔انہیں یوگا میں کوئی مذہبی نظریہ نظر نہیں آتا ہے ۔اسے خالص کسرت کی نظر سے دیکھتے ہیں،حالانکہ انہیں ایک وقت پاکستان میں یوگا پریم کے سبب ’ہندو ایجنٹ‘ اور’ را کا ایجنٹ‘ بھی کہا گیا لیکن ایک وقت ایسا آیا جب سب نے ان کے نیت اور ارادے کو سلام کیا بلکہ ان کی صف میں آکھڑا ہوا پاکستان۔

 لاہور سے ڈھائی سو کلومیٹر دور بورے والا کے رہنے والے ریاض کھوکر کی پہچان اب ’یوگ گرو‘ کی ہے۔جو ابتک یوگ پر ۱۱ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ جن کی زندگی میں یوگا کی آمد اور اس کے بعد کے سفر پر ’آواز دی وائس ‘ اردو کے مدیر منصور الدین فریدی نے تفصیل کے ساتھ بات کی ۔جس میں انہوں نے اپنی اس جدوجہد پر بھر پور روشنی ڈالی جس نے آج پاکستان کو یوگا کا گرویدہ بنالیا ہے۔

سوال :کیسے راغب ہوئے یوگا کی جانب

 ریاض کھوکھر :ایک لمبی کہانی ہے جناب۔ درد سے شروع ہوتی ہے اور شفا پر تمام۔ الحمداللہ ۔دراصل مَیں جوانی میں شیارٹیکا کا شکار ہو گیا تھا۔ ایک دور میں کئی معالجین سے علاج کروایا، لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔میرے ایک دوست نے یوگا پر ایک کتاب دی تھی ،اس کا مطالعہ شروع کیا۔اس دوران پروفیسر واثق محمود سے رابطہ ہوا جنہیں میں اپنا ’یوگ گرو‘ مانتا ہوں۔آپ حیران ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے مجھے بستر مرگ پر ہوتے ہوئے یوگ کرنے کی تلقین کی۔انہیں گلے کا کینسر ہوگیا تھا،آواز بند ہوگئی تھی،اس کے باوجود میری راہنمائی کی۔انہوں نے اس بارے میں پڑھا تھا کہ یوگا کرنے والوں کو کبھی کینسر نہیں ہوتا۔اس لئے انہوں نے مجھے اس کسرت کو اپنانے کا راستہ دکھایا۔وہ اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن مجھے جو راستہ دکھا گئے اس پر چل کر مجھے اس درد سے نجات مل گئی۔

 سوال:کب اور کیسے شروع کی ’یوگا‘تحریک

 ریاض کھوکھر : دیکھئے! 2006میں لاہور سے یوگا تحریک کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان یوگا کاونسل کی بنیاد رکھی۔پہل لاہور سے ہوئی۔

آپ جانتے ہیں یہ باغات کا شہر کہلاتا ہے۔ان میں قدیم باغ بھی ہیں اور جدید پارک بھی۔سب سے پہلے لاہور کے سینٹرل پارک میں اس کا آغاز ہوا تھا۔میں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ’یوگا‘ کسی ’وبا‘ کی طرح پھیل جائے گا۔ اب لاہور میں ایسا کوئی پارک نہیں جہاں نماز فجر کے بعد یوگا نہ ہوتا ہو۔پاکستان یوگا کاونسل کے زیر اہتمام 80 پارک میں اس کا سلسلہ جاری ہے۔لوگ نماز فجر کے بعد اپنے اپنے علاقے کے پارک کا رخ کرتے ہیں۔شالیمار باغ سب سے بڑا مرکز ہے جہاں ہر دن پانچ سو افراد یوگا کرتے ہیں۔

 

 سوال: یوگا اور مذہب میں کس طرح کا تصادم دیکھتے ہیں

 ریاض کھوکھر : میری نظر میں یوگا کو مذہب سےجوڑنا ایسا جیسے چائے کے ساتھ گنا کھایا جائے۔ کسرت ہے ،اس کو کسرت کی نیت سے کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ میں جانتا ہوں کہ زمانۂ قدیم میں یوگا کی مذہبی حیثیت تھی، لیکن چند صدیوں قبل اسے ذہنی سکون اور طوالتِ عُمر کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ خیال رہے کہ ماہرین نے برسوں کی ریاضت کے بعد انسانی جسم میں توانائی کے ایسے مقامات دریافت کئے ہیں، جو صحت مندی اور بیماری میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ ان ماہرین کا ماننا ہے کہ جسم کے ان مقامات کا توازن بگڑنے سے انسان بیمار ہو جاتا ہے۔

  ہندو یوگیوں کے مطابق یوگا کی ابتدا آج سے 5ہزار برس قبل شمالی ہند میں ہوئی اور سب سے پہلے ہندوئوں کی قدیم ترین مذہبی کتاب، رِگ وید میں یوگا کا ذکر کیا گیا۔ یوگا کی قدیم ترین تعلیمات پتّھروں پر کُندہ یا پتّوں پر تحریر تھیں، جو اب معدوم ہو چُکی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کہ آج دُنیا بَھر میں اسے ذہنی و جسمانی بیماریوں سے نجات کے لئے ایک طریقۂ علاج کے طور پر اختیار کیا جا رہا ہے۔ جدید سائنس نے بھی یوگا کی افادیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ یوگا کے مخصوص آسنوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی دورانِ خون کو بہتر بنا کر کئی امراض ختم کر دیتی ہے۔

 سوال:یوگا کوپاکستان میں کبھی مذہبی بنیاد پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ؟

 ریاض کھوکھر: دیکھئے !2011 تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ہندوستان سے آرٹ آف لیونگ کے سربراہ شری شری روی شنکر پاکستان کے دورے پر آئے تھے ۔

اس وقت ان کا ایک سینٹر بھی کھل گیا تھا لیکن ایک گروپ نے اس کو جلا کر خاک کردیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد حکومت چوکس ہوگئی تھی۔ حملوں کا خطرہ تھا ،اس لئےپارکوں میں یوگا کرنے سے منع کیا گیا۔ہر صبح شالیمار باغ اور دیگر پارک میں پولیس افسرآجاتے تھے۔یہ سلسلہ کچھ دنوں چلا ۔لیکن پھر آہستہ آہستہ سب نارمل ہوگا۔زندگی ڈگر پر آگئی۔میں تو کہوں گا کہ اس واقعہ کے بعد لاہور میں یوگا اور بھی تیزی سے مقبول ہوا۔

 سوال:کبھی ذاتی طور پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ؟

 ریاض کھوکھر : جی ہاں! کیسے بچ سکتا تھا۔ اس لہر کے بعد میں بھی ’ہندو ایجنٹ‘ اور ’را‘ کا ایجنٹ کہلایا۔ لوگوں نے بدنام کرنے کی کوشش کی مگر اللہ بہت بڑا ہے۔ لوگوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ یوگ میں مذہب نہیں صحت پوشیدہ ہے۔ جو ایمان کے بعد سب سے بڑی دولت ہوتی ہے۔ یہ ہماری مجبوری تھی کہ ہم نے اس میں کچھ اضافہ کیا۔یہ کہیں کہ اس کو اسلامی رنگ دیا۔ (ہنستے ہوئے) مولوی سے ڈر لگتا ہے صاحب۔

اب یوگا کے دوران ہر پانچ منٹ کے بعد بلند آواز میں یوگی دریافت کرتے ہیں ۔ 

کیسے ہیں آپ ؟

 یوگ کرنے والے ایک آواز میں جواب دیتے ہیں ۔

الحمد واللہ

سوال:سماجی یا معاشرتی طورپراب کیا تبدیلی دیکھ رہے ہیں

 ریاض کھوکر : اب تو سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں ۔عام اور خاص کے ساتھ مذہبی اور غیر مذہبی۔ ما شا اللہ سے اب بڑے بڑے علما حضرات بھی یوگا کررہے ہیں۔ مولانا طارق جمیل بھی ان میں شامل ہیں۔ پاکستان یوگا کاونسل کو ہر کسی نے صحت کے مشن کے طور پر قبول کیا ہے۔تسلیم کیا ہے اور احترام دیا ہے۔ یہی ہے میری سب سے بڑی کامیابی ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں ڈیڑھ سو سے دوسو یوگا سینٹرز چل رہےن ہیں اور وہ بھی مفت۔ ہمیں سب کو صحت دینا ہے کسی سے کچھ لینا نہیں ہے۔

awazurdu

لیجنڈ ایوارڈ سے نوازے گئے تھے ریاض کھوکھر

 سوال: عوام نے آپ کے پاک مقصد کو تسلیم کیا حکومت کا رویہ کیسا رہا؟

ریاض کھوکر: بے شک !حکومت نے اس کو مثبت پہل ہی مانا تھا۔یہی وجہ ہے کہ 2019میں دوسرا سب سے بڑا شہری ایوارڈ’پاکستان لیجنڈ ایوارڈ‘ دیا گیا۔ لاہور کے گورنر ہاوس میں جب ایوارڈ پیش کئے جانے سے قبل میرا تعارف کرایا گیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی جب میں نے یہ الفاظ سنے کہ ۔۔۔۔ ریاض کھوکھر صاحب ،وہ ہستی ہیں جنہوں نے یوگا کو حویلی سے گھرتک پہنچایا۔خاص سے عام تک پہنچایا اور ایک مہنگے شوق کو مفت خدمت بنا دیا۔

 سوال:یوگا کی جنم بھومی پاکستان کیسے ؟

ریاض کھوکر:  دیکھئے!ہر اچھی چیزکے کئی دعویدار ہوتے ہیں۔ ایسے ہی یوگا کا بھی ہے۔ نیپال کا اپنا دعوی ہے اور ہندوستان کا اپنا اور پاکستان کا اپنا۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ یوگ کا وجود یا جنم بھومی موہنجوداڑو ہی ہے کیونکہ یہاں یوگ کے نشانات پائے جاتے ہیں جس سے ثابت ہوا ہے ک یوگ سندھو ماتھری موہنجوداڑو سے ہی جنم لیا ہے۔ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات سے ایسے نشانات اور مہریں ملی ہیں اور یہ برطانوی ارضیاتی محکمے کی رپورٹ کا حوالہ ہے۔

اس مخصوص مہر کو جس میں ایک یوگی آسن میں بیٹھاہے اسےپشو پلی کہا جاتا ہے ۔

awazurdu

موہنجوداڑو  سے برآمد ہوئی مورتیاں اور مہریں جن پر یوگا کے نشانات ہیں

اس مہر کو کراچی کے عجائب گھر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ پاکستان کی دھرتی سے شروع ہونے والا علم آج دنیا میں انسانوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں سرگرم ہے۔