نیٹ2021: خالد سیف اللہ مدرسہ سے میڈیکل تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-11-2021
نیٹ2021: خالد سیف اللہ مدرسہ سے میڈیکل تک
نیٹ2021: خالد سیف اللہ مدرسہ سے میڈیکل تک

 

 

آواز دی وائس : منصور الدین فریدی

پہلے مدرسہ میں قدم رکھا۔ قرآن حفظ کیا یعنی حافظ بنا ، پھر ساتویں کلاس سے اسکول میں قدم رکھا اور اب ’نیٹ 2021‘ میں کامیابی حاصل کی یعنی ڈاکٹر بننے کی جانب پہلا قدم اٹھا دیا۔

 یہ ہے کامیابی کی ایک بے مثال کہانی ،جس کا مرکزی کردار ہے خالد سیف اللہ ،پٹنہ کا ایک نوجوان، سب سے اہم ایک امام کا بیٹا اور’ رحمانی 30’ کی ایک دین۔

خالد سیف اللہ جن کا تعلق دربھنگہ کے دوگھرا جالے گاوں سے ہے ، ان کے والد مولانا حافظ محمد اسلام قاسمی  پٹنہ میں نیوعظیم آباد کی مسجد کے امام ہیں۔

نیٹ کے نتائج کےساتھ جہاں ملک کے سامنے مختلف شہروں کا ٹیلنٹ تو سامنے آتا ہی ہے ،ساتھ ساتھ ایسی کہانیاں بھی ہم سب کے سامنے آتی ہیں جو کہیں نہ کہیں اس کامیابی کو پانے کے پیچھے کی جدوجہد اور محنت کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ کہیں نہ کہیں معاشرے کی سوچ بدلتی ہیں تو کہیں نہ کہیں سوچ کو غلط ثابت کرتی ہیں اور ایک نئی مثال ثابت کرتی ہیں ۔

دراصل یہ کہانی صرف اس نوجوان کے اردگرد نہیں گھوم رہی ہے۔ بلکہ اس میں ایک غریب امام کی اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کی جدوجہد پوشیدہ ہے،جنہوں نے خالد سیف اللہ سے قبل اپنے بڑے بیٹے کو’ بی ٹیک’ کرایا اور ایک بیٹی کو پچھلے سال ہی ’نیٹ‘ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ’پی ایم سی ایچ’ میں ایم بی بی ایس کی طالبہ بنا دیا ۔

مدرسہ سے بسمہ اللہ

مگر اس کہانی میں اہم پہلو یہ ہے کہ خالد سیف اللہ کی ابتدائی تعلیم نہ صرف مدرسہ میں ہوئی تھی بلکہ وہ حافظ قرآن ہیں ۔انہوں نے قرآن حفظ کرنے کے بعد اسکول میں قدم رکھا اور سخت محنت کرکے بنیادی تعلیم کی ان تمام کمزوریوں پر عبور حاصل کیا جو اس کامیابی کے لیے ضروری تھیں۔حفظ کرنے کا خواب حقیقت میں بدلا کیونکہ کہیں نہ کہیں یہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ پہلے دینی تعلیم مکمل کرلیں۔ جس کے لیے خالد سیف اللہ نے مدرسہ کا رخ کیا اور والد کی خواہش کو پورا کیا۔

 اسکول میں محنت اور چھلانگیں 

 مدرسہ کی تعلیم کے بعد اسکول میں ساتویں کلاس میں قدم رکھنا آسان تھا اور نہ ہی تعلیم ۔ خالد سیف اللہ نے ’آواز دی وائس ‘ کو بتایا کہ میرے لیے یقینا بہت مشکل تھا لیکن جب میں نے حافظ بننے کے بعد‘ بیکون اسکول‘ میں ساتویں کلاس میں قدم رکھا تو پہلے چھ ماہ بہت سخت محنت کی تھی۔یہ بہت نازک مرحلہ تھا اور میرے لیے محنت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

حد تو یہ ہےکہ ایک سال کی محنت کے بعد خالد سیف اللہ نے پریسڈ نسی اسکول میں نویں کلاس میں داخلہ لیا اور اپنا ایک سال بچا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔سائنس میں بچپن سے دلچسپی تھی اور ایک بہن میڈیکل میں قدم رکھ چکی تھی یہی وجہ ہے کہ خالد سیف اللہ نے محنت اور لگن سے منزل پائی۔

رحمانی 30 کا دور

 وہ کہتے ہیں منزل پانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ’رحمانی 30‘ نے۔ جہاں میں نے ’نیٹ‘ کی تیاری کی ۔ایک مثبت اور خوشگوار ماحول میں کوچنگ حاصل کی۔ میرے لیے ’رحمانی 30‘ کا دور بہت کارآمد رہا۔ بہترین ٹیچرز اور گائڈز کے ساتھ منزل پانے میں بہت مدد ملی۔

 انہوں نے نیٹ کی تیاری کے لیے رحمانی 30 کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی درخواست دی تھی اور یہ ان کی اہلیت کا ثبوت ہی تھا کہ دونوں اداروں میں ان کا سلیکشن ہوگیا تھا۔ لیکن رحمانی 30 اس لیے پہلی پسند بنا ایک ہی شہر میں تھا اور سفری اخراجات سے بچا جاسکتا تھا۔

 خالد سیف اللہ نے ’آوازدی وائس سے کہا کہ رحمانی 30 میں ایڈ میشن کے بعد ہاسٹل کی زندگی میں نئے تجربات ہوئے۔ تعلیم کے ساتھ بھی بہت کچھ سیکھا۔وہ سب زندگی میں کام آئے گا اور آرہا ہے۔ زندگی میں سب سے اہم ڈسپلن ہوتا ہے اور وہ بھی رحمانی 30 میں شمولیت کے بعد زندگی کا حصہ بن گیا۔

رحمانی 30 میں خالد سیف اللہ کی کوچنگ اور رہائش سب مفت رہی۔جس نے ایک امام کے دوسرے خواب کو بھی پورا کرنے میں بہت مدد کی۔

ایک امام کا عہد

 مولانا قاسمی صاحب اپنے بچوں کی تعلیمی کامیابی پر کہتے ہیں کہ اللہ کی مہربانی ہے۔ میرا مقصد ہمیشہ یہی رہا ہے کہ بچوں کی زندگی میں دین اور دنیا کا توازن بنا سکوں ۔وہ مانتے ہیں کہ ایک امام ہونے کے باوجود اگر بچوں کو اعلی تعلیم دلائی تو اس کے پیچھے رزق حلال کی برکت اور نیت کا دخل ہے۔ اگر آپ کا ارادہ نیک ہو تو اللہ بھی ساتھ دیتا ہے۔

مولانا قاسمی کہتے ہیں کہ اپنی تنخواہ کے بارے میں کچھ بتاوں تو آپ یقین نہیں کریں گے لیکن ہر حال میں شکر اللہ کا ادا کرتا ہوں۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیوشن وغیر کیے تھے۔ اس کے بعد کہیں نہ کہیں اللہ کی مدد ملی۔ پہلے بیٹی شگفہ انجم نے نیٹ میں کامیابی حاصل کی- اس وقت ایک نیا کوچنگ سینٹر'' اے این بی" قائم ہوا تھا جس کے کرتا دھرتا نے ہی میری بیٹی کو بلایا ،اپنے سینٹر پر کوچنگ کرائی ۔آج بیٹی میڈیکل کی طالبہ ہے۔ بے شک اللہ راہ نکالنے والا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو بتایا ہے کہ ڈاکٹر بنوں تو علاج کو ایسا بنانا کہ ہر کسی کے لیے ممکن ہو۔ آپ کمائیں بھی اور خدمت بھی کریں ۔اپنے دلوں میں انسانی خدمت کا جذبہ برقرار رکھیں ۔یہی اصل طاقت اور کمائی ہوگی جو زندگی میں مزید کامیابی دے گی۔