محمد علی سحاب: یتیمی سے افسری تک سفر

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 12-08-2021
محمد علی سحاب
محمد علی سحاب

 

 

 آواز دی وائس، نئی دہلی

محمد علی سحاب ایک ایسی شخصیت کا نام ہے، جس نے غریبی اور معاشی مشکلات کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہ دیا، بلکہ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیرکرنے میں لگے رہے۔

محمد علی سحاب کسمپرسی میں پرورش پاکر آج ایک آئی ایس آفیسر بن کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

محمد علی سحاب کی کہانی اس بات کی ایک بہترین مثال ہے کہ آپ کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے کوئی چیز مانع نہیں بن سکتی۔

محمد علی سحاب سن 2011 بیچ کے آئی اے ایس افسر ہیں۔

ان کے والد بچپن میں ہی ایک خطرناک بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے، جس کی وجہ سے انہیں اپنا بچپن یتیم خانے میں بتانا پڑا۔ محمد علی سحاب کی پیدائش ریاست کیرالہ کے ضلع ملاپورم کے ایڈاواناپارہ قصبہ میں 15 مارچ 1980 کو ہوئی۔

ان کے والد کا نام قرات علی تھا، جب کہ والدہ کا فاطمہ۔ تاہم اپنے خاندان کے خراب معاشی حالات کے پیش نظر وہ اپنے والد علی کے ساتھ پان اور بانس کی ٹوکریاں فروخت کرنے کا کام کرنے لگے۔

تاہم سنہ 1991 میں ان جدوجہد ختم نہیں ہوئی کیونکہ اسی بری برس ایک لمبی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ انتقال کرگئے۔ ان کی نہ تو تعلیم یافتہ تھی اور نہ ہی وہ اپنے 5 بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کوئی روزگار حاصل کر سکتیں۔

اپنی غربت سے تنگ آکر ان کہہ ان کی والدہ انہیں کاذیکوڈ کے ایک یتیم خانہ میں رکھوا دیا تاکہ ان کے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی مل جائے، تعلیم بھی حاصل کرلے اور ایک درست پناہ گاہ بھی ان کے پاس سن بلوغت تک محفوظ رہے۔

محمد علی سحاب کو بہت کم عمری میں ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ تعلیم سب سے بڑی دولت ہے، شاید یہی سبب ہے کہ یتیم خانے منتقل ہونے کے فورا بعد انھوں نے خود کو تعلیم کے لئے مکمل طور پروقف کر دیا اور اپنی ذہانت کی وجہ سے ایک بہترین طالب علم بن گئے۔

یو پی ایس سی پاس کرنے کے بعد انہوں نے ریاستی سطح کے پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں بھی حصہ لیا۔

انہوں نے محکمہ جنگلات، جیل وارڈن اور ریلوے ٹکٹ ایگزامنر وغیرہ کے عہدوں کے امتحانات بھی دیئے۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد علی سحاب نے ریاستی سطح کے بہت سے سارے امتحانات بھی پاس کیے ہیں۔

تاہم یو پی ایس سی کا امتحان دینے سے پہلے انہوں نے دیگر شعبوں میں کامیابی حاصل کی۔ یہاں تک کہ اچھے نمبروں کے ساتھ ایس ایس ایل سی امتحان بھی پاس کیا اور وہیں بی ایڈ بھی کر چکے ہیں۔اس کے بعد انہیں ایک سرکاری اسکول میں استاد کی ملازمت بھی مل گئی۔

ایک انٹرویو کے ذیل میں محمد علی سحاب بتاتے ہیں کہ جب میں یتیم خانہ کے زمانہ قیام میں؛میں رات گئے تک پڑھتا رہتا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں چادر کے نیچے ٹارچ کی مدھم روشنی میں مطالعہ کرتا تھا تاکہ دوسرے ساتھیوں کی نیند میں خلل نہ پڑے۔

یو پی ایس سی امتحانات میں انھوں نے تیسری کوشش میں کامیاب ہوئے، اس طرح 2011 میں ایک اعلیٰ افسر بن گئے۔

انہیں آل انڈیا 266 واں رینک ملا۔ امتحان پاس کرنے کے بعد میں انہیں کوہیما، ناگالینڈ وغیرہ میں تعینات کیا گیا۔ ایک موقع پر انھوں کہا کہ میں یتیم تھا اور جس ضلع کی میں دیکھ بھال کر رہا ہوں وہ بھی یتیم خانے کی طرح ہے۔

وہ اپنی زندگی کا تجربہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے والد کی موت کے بعد گویا میری زندگی کا خاتمہ اس وقت ہی ہوگیا تھا جب کہ میں محض گیارہ برس کا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ محدود مواقع اور وسائل کی کمی انسان کو جینے کا ایک الگ انداز سکھاتی ہے۔

انسان کی کھوئی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ بہت کچھ کر گزرتا ہے۔ محمد علی سحاب کی خود نوشت ملیالم زبان میں ویرالٹم(Viralattam) بھی شائع کر مقبول خاص و عام ہوچکی ہے۔

ان کے تمام بھائی بہنوں نے تعلیم حاصل کی ، بھائی ڈاکٹر بنے جب کہ بہن اسکول ٹیچر بنیں۔ وہیں سحاب نے اسکول کی ایک استانی عائشہ فیمینا سے شادی کی ان سے دو بچے ہوئے، بیٹا لیسن اور بیٹی لیا ہے۔

محمد علی سحاب کے تمام بھائی بہن اور اہلیہ سرکاری ملازمت میں ہیں۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ ہمیں اپنے خوابوں کو اُجاگر کرنے کے لیے ہر ممکن کرنی چاہئے، تبھی جاکر کامیابی ان کے قدم چومے گی۔