حیدرآباد:اسکول انتظامیہ کا سہارا دو طلبہ کا مستقبل سنوار گیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
حیدرآباد: طالب علم محمد سہیل خان کو 42لاکھ روپے کی اسکالر شپ
حیدرآباد: طالب علم محمد سہیل خان کو 42لاکھ روپے کی اسکالر شپ

 


شیخ محمد یونس،حیدرآباد

تعلیمی میدان میں کامیابی کی انوکھی کہانیاں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں ۔ مگر یہ کہانی ذرا مختلف ہے کیونکہ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے کا سہارا بنا ہے اسکول انتظامیہ۔ایک غریب اور یتیم بچے کی تعلیمی ذمہ داری کو قبول کیا۔ انہیں ایک ایسے وقت اسکول میں تعلیم کا موقع دیا جب ان کے لیے تعلیمی اخراجات ناقابل برداشت تھے۔ان کا مستقبل داو پر تھا۔

ملک میں یوں تو اسکول انتظامیہ کے ساتھ اکثر فیس کے لیے تنازعہ کی خبریں سامنے آتی ہیں  لیکن ایسی خبریں نہیں آتی کہ کسی ضرورت مند بچے کی فیس معاف کی گئی ہو۔

مگر ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدراآباد سے تعلق رکھنے والے طالب علم محمد سہیل خان  اور مرزا خواجہ بیگ  کی کہانی چوکنا دینے والی ہے ۔جنہیں ایک نازک وقت اسکول انتظامیہ نے سہارا دیا۔ ان کے تعلیمی سفر کو رکنے نہیں دیا ۔جس کے سبب دونوں طلبہ نے اپنے اپنے میدان میں اعلیٰ تعلیم  کے لیے اسکالر ز شپ حاصل کیں ۔ 

محمد سہیل خان کا سفر

 صد فیصد اسکالر شپ کے ساتھ باوقار اور ریاست مہاراشٹر کے شہر پونہ کے مایہ نازتعلیمی ادارہ مہیندرا یونائیٹڈ ورلڈ کالج آف انڈیا میں مفت داخلہ ملا ہے۔

خیال رہے کہ یہ ساری دنیا میں واقع 18یونائٹیڈ ورلڈ کالجس کالجس میں سے ایک ہے۔

دوسالہ انٹر میڈیٹ کورس کیلئے مذکورہ  کالج میں تعلیم کیلئے 42لاکھ روپے کے اخراجات ہوتے ہیں۔

محمد سہیل خان کو دوسالہ تعلیم کیلئے صد فیصد اسکالر شپ حاصل ہوئی ہے وہ قیام و طعام کے ساتھ مفت تعلیم حاصل کریں گے۔

محمدسہیل خان گریس ماڈل اسکول(سینٹ ماریہ ہائی اسکول) پنی پورہ کاروان کے طالب علم ہیں۔ اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے، ان کے والد اآٹو چلاتے کر اپنی روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔

 ان کے والد کا 2017 میں انتقال ہوگیا۔

اس وقت سہیل ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔

ایسے نازک اور سنگین حالات میں اسکول کے ذمہ دار مرزا عرفان بیگ اور ان کی شریک حیات عائشہ صدیقہ نے سہیل کی تعلیم کی ذمہ داری لی۔

مرزا عرفان بیگ دردمند دل کے مالک ہیں انہوں نے سال 2002 میں غریب بچوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے مقصد کے ساتھ سلم علاقہ سبزی منڈی میں اسکول کا قیام عمل میں لایا۔

طلبہ کو ماہانہ صرف 50 روپے فیس پر معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔

چونکہ اتنی قلیل فیس میں بچوں کو تعلیم کی فراہمی میں مشکلات پیش آرہی تھیں ایسے میں اسکول کے ذمہ داران نے مختلف فلاحی تنظیموں کے ساتھ اشتراک کیا۔

آج بھی اسکول میں نرسری تا دہم کے طلبہ کی  ماہانہ فیس 300 تا 850 روپے کے درمیان ہے۔

اسکول میں غریب  بچوں کے لئے مفت تعلیم کا نظم ہے۔

محمد سہیل خان  رواں ماہ کے آخری ہفتہ میں مہیندرا کالج میں اپنی تعلیم کا آغاز کریں گے۔

دراصل محمد سہیل کو جرمنی میں واقع یونائٹیڈورلڈ کالج میں داخلہ حاصل ہوا تھا۔

کورونا وباء اور لاک ڈاون کی وجہ سے روانگی میں مشکلات پیش آئیں۔

ہندوستان میں کورونا کی دوسری لہر کے باعث جرمنی نے ہندوستانی طلبہ کی آمد پر روک لگائی۔

تب کالج کے ذمہ داران نے مہیندرا کالج پونہ میں داخلہ کی سہولت فراہم کی۔

مہیندرا کالج کا دنیا کے بہترین اور معیاری کالجوں میں شمار ہوتا ہے۔

ورلڈ یونائیٹیڈ کالجس کی صدرنشین کوئین نور ہیں جب کہ لارڈ مائونٹ بیٹن ' ایچ آر ایچ پرنس چارلس ' نلیسن منڈیلا بھی اس کے صدرنشین رہ چکے ہیں۔

یونائٹیڈ۔ورلڈ کالجس میں تعلیم کا حصول طلبہ کا خواب ہوتا ہے۔

گریس اسکول کے ذمہ داران اور ٹیچ فار انڈیا کی رہنمائی کے باعث محمد سہیل خان کو مہیندرا کالج میں صد فیصد اسکالر شپ کے ساتھ داخلہ ملا ہے۔

محمد سہیل خان نے آواز دی وائس کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ والد کے انتقال کے بعد ان کی تعلیم کے امکانات تاریک ہونے لگے تھے۔ ایسے حالات میں عرفان اور عائشہ میڈم نے میری تعلیم کی ذمہ داری لی۔ میں ان دونوں کا ہمیشہ ممنون و مشکورر ہوں گا۔

محمد سہیل خان نے بتایا کہ اعلیٰ تعلیم کا حصول ان کا خواب ہے۔ وہ حصول تعلیم کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔ سہیل مہیندرا کالج میں انٹر میڈیٹ کی تعلیم حاصل کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ عالمی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہاں ہیں۔

محمد سہیل خان نے بتایا کہ وہ مستقبل میں  درس و تدریس سے وابستہ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

awazurdu

                                                                                                                        مرزا عرفان بیگ اور عائشہ صدیقہ اور دونوں طلبہ 

خواجہ بیگ کی کہانی 

علاوہ ازیں گریس ماڈل اسکول کے ایک اور طالب علم خواجہ بیگ کو نوا گروکل دھرما شالہ ہماچل پردیش میں صد فیصد اسکالرشپ کے ساتھ انجینئرنگ میں داخلہ ملا ہے۔

خواجہ بیگ کے والد ٹیلر ہیں یہ متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ خواجہ بیگ کے تین بڑے بھائی چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے ہیں۔ خواجہ بیگ نے امتیازی نمبروں کے ساتھ  بارہویں جماعت پاس کیا۔

اسکول کے ذمہ داروں نے آٹھویں جماعت سے خواجہ بیگ کی تعلیم کی ذمہ داری لی۔

انہیں انٹر میڈیٹ کی تعلیم بھی اسکول کے منتظمین اور پون منی کانتا ( ٹیچ فارانڈیا المونی) کی جانب سے دلائی گئی۔ خواجہ بیگ جولائی میں ہماچل پردیش روانہ ہوگئے اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

خواجہ بیگ نے بتایا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ذریعہ اپنے مستقبل کو درخشاں اور تابناک بنانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے حصول تعلیم میں مدد پر عرفان سر اور عائشہ میڈم اور تمام اساتذہ کا شکریہ ادا کیا۔

گریس ماڈل اسکول کے ذمہ دار عرفان بیگ نے بتایا کہ وہ بنیادی طورپر انجینئر ہیں۔

انہوں نے تقریباً پانچ سال سعودی عرب میں خدمات انجام دیں۔

مرزا عرفان بیگ سبزی منڈی ہی کے ساکن ہیں ۔ سعودی عرب سے واپسی کے بعد عرفان بیگ نے غریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے  درس و تدریس سے خود کو ہم آہنگ کرنے کیلئے ایم اے' ایم فل انگریزی کے علاوہ بی ایڈ کی بھی تکمیل کی۔

انہوں نے بتایا کہ سبزی منڈی کا علاقہ بازار سے گھرا ہوا ہے۔

یہاں کے غریب بچوں کو تعلیم کی فراہمی کے لیے 50 روپے فیس کے ساتھ سال 2002 میں اسکول کا آغاز عمل میں لایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اسکول میں سینکڑوں غریب' یتیم اور یسیر بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔

ایس ایس سی میں کامیابی کے بعد کئی بچے غربت کی وجہ سے ترک تعلیم کررہے تھے ایسے حالات میں گزشتہ 4 برسوں سے ہر سال دو بچوں کو انٹر میڈیٹ کی تعلیم دلائی جارہی ہے۔

مرزا عرفان بیگ نے بتایا کہ خواجہ بیگ کو بھی انٹر میڈیٹ کی تعلیم دلائی گئی اور انہیں نوا گروگل دھرماشالہ ہماچل پردیش میں داخلہ مل گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسکول کی جانب سے غریب اور نادار بچو ں کو تعلیم کے لیے ہر ممکنہ مدد کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ غریب بچوں تک معیاری تعلیم کی فراہمی ان کا مشن ہے جس کیلئے وہ ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور سہیل خان اور خواجہ بیگ کی شکل میں ان کی کوششیں ثمر آور ہوئی ہیں۔