تعلیم کی راہ میں حجاب رکاوٹ نہیں : گولڈن گرل بشری متین

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-03-2022
تعلیم کی راہ میں حجاب رکاوٹ نہیں : گولڈن گرل بشری متین
تعلیم کی راہ میں حجاب رکاوٹ نہیں : گولڈن گرل بشری متین

 

 

آواز دی وائس : منصور الدین فریدی 

والد کی خواہش تھی کہ بیٹی ڈاکٹر بنے مگر میری پسند سول انجینئرنگ تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ والد نے کبھی زور نہیں دیا اور دباو نہیں ڈالا کہ میڈیکل میں قسمت آزماو۔ آج اگر میں کچھ کامیابی حاصل کر سکی ہوں تو اس سہرا محنت کے ساتھ اہل خاندان کی سپورٹ ہے،میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ  میں نے جس راہ کو چنا اس پر کا میابی ملی۔بات حجاب کی تو یہ میری پسند ہے اور بنیادی و آئینی حق ۔جو کبھی میری راہ میں رکاوٹ نہیں بنا اور نہ ہی کسی غیر مسلم نے اس پر اعتراض کیا۔اسکول سے کالج تک یہ کوئی مسئلہ نہیں رہا ۔ 

یہ الفاظ ہیں کرنا ٹک کے رائچور سے تعلق رکھنے والی بشریٰ متین کے، جو وشویشوریا ٹیکنیکل یونیورسٹی بیلگام کے ایس ایل این کالج آف انجینئرنگ،رائچور کی' بی ای سول' کی طالبہ ہیں۔حال ہی میں 16 گولڈ میڈلز کی حقدار بن کر سرخیوں میں چھائی ہوئی ہیں ۔انہوں نے یونیورسٹی کے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔اس سے قبل یونیورسٹی سے 13 گولڈ میڈل حاصل کیے جانے کا ریکارڈ تھا۔یہ 24 سالہ ٹیکنیکل یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلا موقع ہے جب کسی طالب علم نے اتنے گولڈ میڈلز حاصل کئے ہیں ۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے بشری متین نے کہا کہ  بلاشبہ ہر کامیابی میں ماں باپ کی دعاوں کا ہاتھ ہوتا ہے ،میرے لیے  سب سے اہم بات یہ ہے کہ والدین کی جانب سے تعلیم کے لئے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ اور پابندی نہیں ہے۔سب کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم بہت اہمیت  رکھتی ہے۔

یاد رہے کہ  بشریٰ متین نے اپنی بے پناہ تعلیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس ایل این کالج آف انجینئرنگ،رائچور سے بی ای سول میں 9.47 گریڈ کے ساتھ  شاندار کامیابی حاصل کی اور 16 گولڈ میڈلس اپنے نام کیے ہیں۔

awazurdu

بشری متین اپنے میڈلز حاصل کرنے کے بعد


بشری متین کے والد شیخ ظہیرالدین اور والدہ شبانہ پروین کے لیے  بیٹی کی یہ کامیابی عید کی خوشی کی طرح ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بشریٰ متین کے والد شیخ ظہیر الدین نے انجینئرنگ ڈپلومہ کیا تھا مگر ان کی خواہش تھی کہ بیٹی میڈیکل ڈگری حاصل کرے۔مگر بشری متین کی رگوں میں بھی انجیئنرنگ دوڑ رہی تھی۔اس نے بی ای سول  میں اپنا لوہا منوالیا ۔

وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ میری کانونٹ اسکول رائچور سے حاصل کی جبکہ پری یونیورسٹی کورس پرامانا پی یو کالج رائچور سے مکمل کیا۔ میں نے سبھی امتحانات میں 90 فیصد سے زیادہ نمبرز حاصل کیے۔ پری یونیورسٹی کورس کے بعد بنگلور کے کئی بڑے کالجوں میں داخلہ مل رہا تھا۔ لیکن میں نے ایس ایل این کالج میں پڑھ کر ہی یہ کامیابی حاصل کی۔

بشریٰ متین  بڑے فخر سے کہتی ہے کہ یہ پہلی کامیابی نہیں ہے بلکہ ایس ایس ایل سی میں انہیں 94.72فیصد نمبر ملے تھے ۔ پی یو سی میں 93.33فیصد اور اب بی سی سول میں 9.47گریڈ کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔میں امتحانات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکی کیونکہ میں نے نصابی کتابوں کا مطالعہ کیا نہ کہ صرف امتحانات کے لیے تیار کردہ نوٹس کا سہارا لیا تھا ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ بشری متین کا تعلق ایک ایسی ریاست سے ہے جہاں حالیہ دنوں میں حجاب تنازعہ کا شکار رہا ہے ۔آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں اب یہ معاملہ عدالت میں ہے ،اہم بات یہ ہے کہ مجھے کبھی بھی حجاب کے ساتھ کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔اسکول ہو یا کالج ۔حجاب کہیں بھی کسی بحث کا موضوع نہیں رہا۔ میں تو اپنے اسکول سے کالج تک انتظامیہ کی شکر گزار ہوں جنہوں نے ہر موڑ پر میری حوصلہ افزائی کی ہے۔ 

بشری متین کہتی ہیں کہ حجاب کوئی مسئلہ ہے نہ بحث۔وہ ہمارے بنیادی اور آئینی حق کا حصہ ہے۔کوئی ایسی شئے نہیں جس کو تعلیم یا ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جائے ۔یہ پسند اور چوائس کا معاملہ ہے۔ 

بی ای سول میں  گولڈن گرل بننے کے باوجود بشری متین کے دماغ میں کسی ملازمت کا خیال نہیں ،وہ دیگر راہوں کی جانب دیکھ رہی ہیں ،وہ کہتی ہیں کہ ان کا نشانہ ’’ یو پی ایس سی امتحانات ‘‘کی تیاری ہے۔ جس میں وہ مصروف ہیں۔ اس پسند کےبارے میں بشری متین کا کہنا ہے کہ کیونکہ وہ اس عہدے کو سماجی خدمت کے لیے زیادہ کارآمد سمجھتی ہیں۔ اس لیے انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس ان کی منز ل ہے۔ 

 دلچسپ بات یہ ہے کہ بشری متین کسی بھی امتحان کی تیاری کے لیے تہجد سے فجر کے وقت کو بہترین مانتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میں تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پڑھنے کی عادی ہوں ۔ میں سمجھتی ہوں کسی بھی تیاری کے لیے اس سے بہتر کوئی اور وقت نہیں ہوتا ہے۔ 

awazurdu

حجاب پوش بشریٰ متین کی اس تاریخی کارکردگی پر انہیں ہرطرف سے مبارکبادیاں پیش کی جارہی ہیں۔ مبارکباد دینےو الوں میں معروف اداکارہ سورا بھاسکر بھی شامل ہیں۔پیر کو اس کامیابی کی خبر عام ہوتے ہی بشریٰ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگیں۔ ٹویٹر پر کئی اہم شخصیات نے بشریٰ کی کامیابی پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ 

لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا، گورنر تھاورچند گہلوت، اور اعلیٰ تعلیم کے وزیر سی این اشوتھ نارائن نے گولڈن گرل کو اس وقت مبارک باد دی جب وہ میڈلز لینے کے لیے ڈائس پر گئیں۔وہ کہتی ہیں اس وقت کا احساس ناقابل بیان ہے۔ یقینا محنت کا پھل ملتا ہے تو خوشی ہوتی ہے اور جب لوگ اسے سراہتے ہیں  تو اور بھی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ 

ساتھ ہی بشریٰ کا کہنا ہے کہ اگر آپ کا مقصد بڑا ہے تو اس کے سامنے پریشانیاں چھوٹی ہوتی جاتی ہیں۔ ہر مسئلے کا حل پہلے سے موجود ہے، اس لیے اپنے مقصد کو معمولی نہ ہونے دیں۔