رحمانی 30 سے آئی ایس آئی تک : تابش رضا کی کامیابی کا سفر بنا ایک مثال

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 28-09-2024
رحمانی 30  سے آئی ایس آئی تک : تابش رضا  کی کامیابی کا سفر بنا ایک مثال
رحمانی 30 سے آئی ایس آئی تک : تابش رضا کی کامیابی کا سفر بنا ایک مثال

 

محفوظ عالم :پٹنہ 

آج کا وقت تعلیم کا ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں ہے بلکہ ایک بہتر انسان بننا ہے۔ ہم کوئی بھی کام کرے اس میں کامیابی تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب ہمارے پاس تعلیم کا زیور موجود ہو، اس لیے پہلی ترجیح تعلیم کو ملنی چاہئے۔ یہ کہنا ہے تابش رضا کا۔ آواز دی وائس نے تابش رضا سے خاص بات چیت کیا۔ تابش رضا رحمانی 30 کے طالب علم ہیں اور ان کا داخلہ ملک کے باوقار ادارہ

Indian Statistical Institute

میں ہوا ہے۔ وہ اپنے سماج کے واحد طالب علم ہیں جن کا آئی ایس آئی دہلی میں سلیکشن ہوا ہے۔ غورطلب ہے کہ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو عالمی سطح کی تعلیمی اور تحقیقی مواقع فراہم کراتا ہے۔ تابش کی اس زبردست کامیابی پر رحمانی 30 کے انتظامیہ بیحد خوش ہیں وہیں تابش رضا نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رحمانی 30 نہیں ہوتا تو میں یہاں تک نہیں پہنچ پاتا۔

مستقل مزاجی کامیابی کی ضمانت

تابش رضا کا کہنا ہے کہ دنیا کی ہر بڑی کامیابی تب حاصل ہوتی ہے جب اس کے لیے مسلسل یعنی لگاتار محنت کی جاتی ہے۔ کوئی شخص کنسسٹینسی کے ساتھ کسی کام میں لگا رہے تو وہ کام ہو جائے گا۔ اگر مستقل مزاجی نہیں ہے تو کسی کام کا نتیجہ مثبت نہیں ہو سکتا ہے۔ پڑھائی میں انفرادیت لانے کے لیے طالب علم کو خود کے گول پر کافی فوکس رہنا ہوتا ہے، اگر ایسا ہوگا تو منزل تک پہنچنا دشوار نہیں ہے۔ معاشی کمزوری ضرور رکاوٹ بنتی ہے لیکن معاشرہ کا سپورٹ سسٹم اس کمی کو دور کر سکتا ہے۔

تابش رضا کا تعلق صوبہ جھارکھنڈ سے ہے۔ ان کی پیدائش ضلع گرڈیہ میں ہوئی۔ تابش رضا کا کہنا ہے کہ ان کے والد محمد امین الدین جھارکھنڈ میں ایک کنٹریکٹ ٹیچر ہیں اور والدہ واجدہ تبسم گھریلو خاتون ہیں۔ ایک بہن ہے جن کی شادی ہو چکی ہے۔ چار لوگوں پر مشتمل میرا خاندان ہے۔ تابش رضا کا کہنا ہے کہ ان کے والد اردو سے تعلیم حاصل کیے اور وہ کافی پڑھنا چاہتے تھے لیکن دادا کے انتقال ہونے کے سبب والد محترم جتنا پڑھنا چاہتے تھے نہیں پڑھ سکے۔ تابش رضا کا کہنا ہے کہ والد محترم نے مجھے کافی موٹیوٹ کیا اور میرے تعلیم کو لیکر کافی سنجیدہ رہے۔ ابتدائی تعلیم میں نے اپنے والد سے حاصل کی۔ پھر میرا داخلہ گرڈیہ میں جواہر نوودیا ودیالیہ میں ہوا۔ جواہر نوودیا ودیالیہ گرڈیہ سے میں نے 6ویں سے 10ویں تک کی تعلیم حاصل کی۔ جب میں جواہر نوودیا ودیالیہ میں تھا اسی وقت میرے ایک سینئر طالب علم کا داخلہ رحمانی 30 میں ہوا تھا۔ ان سے پہلی بار میں نے رحمانی 30 کا نام سنا تھا۔ 10ویں کے بعد میں نے رحمانی 30 کا انٹرنس ٹیسٹ دیا اور اس میں میرا سلیکشن ہو گیا۔

رحمانی 30سے آئی ایس آئی دہلی  تک کا سفر 


رحمانی 30 کا سفر

تابش رضا کا کہنا ہے رحمانی 30 میں داخلہ ہونے کے بعد دو سال تک رحمانی 30 میں رہ کر میں نے اپنی تیاری مکمل کی۔ تابش کا کہنا ہے کہ جب وہ اسکول میں تھے تبھی آئی آئی ٹی میں جانے کا خواب دیکھا تھا۔ رحمانی 30 میں آئی آئی ٹی کی کافی بہتر تیاری کرائی جاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ مختلف امتحانات رحمانی 30 طلبا سے دلواتا ہے، اس کا کافی فائدہ ہوتا ہے۔ تابش نے بتایا کہ رحمانی 30 منفرد ماحول طلبا کی تیاری کے لیے مہا کیا ہے۔ ٹیچر کافی اچھے ہیں اور ایک ایسا پیٹرن موجود ہے جہاں طالب علم دو سال رہ کر ایک ایسی تیاری کر پاتا ہے جس کے سبب آئی آئی ٹی اور دوسرے امتحانات کو نکال پانا آسان ہو جاتا ہے۔ تابش کے مطابق رحمانی 30 میں پڑھ رہے ان کے دوستوں نے بھی پڑھائی میں ان کی کافی مدد کی، نتیجہ کے طور پر ان مضامین میں بھی پختگی حاصل ہوتی گئی جس میں وہ کمزور تھے۔ تابش رضا کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک طالب علم کتنے گھنٹہ پڑھتا ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ ایک طالب علم کی پڑھائی کا کنسسٹینسی کیا ہے۔ تابش رضا نے کہا کہ وہ کبھی 15 اور 16 گھنٹہ نہیں پڑھتے تھے بلکہ 6 سے 7 گھنٹہ پڑھتے تھے لیکن کافی اچھے سے پڑھتے تھے اور مسلسل یہ سلسلہ دو سال تک چلتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ رحمانی 30 میں طالب علم کو موبائل نہیں دیا جاتا ہے، گھر جیسا ماحول ہے۔ میں جھارکھنڈ سے تھا لیکن دو سالوں میں گھر کو مس نہیں کیا بلکہ رحمانی 30 کا ایک پورا نظام ایسا ہے جہاں طالب علم کا بیحد خیال رکھا جاتا ہے اور اس کی پڑھائی کو لیکر کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بچہ کافی اچھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے کافی بہتر تیاری ہو جاتی ہے۔ رحمانی 30 کافی اس ٹریکٹ ہے، اگر کوئی غلطی کر رہا ہے تو ڈانٹ بھی ملتی ہے، بیمار ہیں تو اس میں بھی مدد کرتے ہیں۔ مجھے ایسا نہیں لگا کی گھر سے دور ہیں۔ تابش رضا کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کی آج میرا داخلہ دہلی کے آئی ایس آئی جیسے ادارہ میں بیچلر آف اسٹیٹیسٹیکل ڈیٹا سائنس میں ہوا ہے۔

اس کامیابی پر مجھ سے زیادہ گھر والے خوش

تابش رضا کے مطابق دہلی کے آئی ایس آئی میں داخلہ ملنے سے میں بہت خوش ہوں۔ بیچلر آف اسٹیٹیسٹیکل ڈیٹا ایک نیا کورس ہے جس میں ڈیٹا سائنس اور کمپیوٹر کو شامل کیا گیا ہے۔ اسٹیٹیسٹیکل ڈیٹا سائنس ایک نیا کورس ہے، پہلی بار آئ ایس آئ نے اسے شروع کیا ہے۔ میرے ٹریڈ میں پورے ملک سے 75 طالب علم کامیاب ہوئے۔ 25 طالب علم کا دہلی میں، 25 کولکتہ میں اور 25 کا بنگلور میں داخلہ ہوا۔ میرا داخلہ دہلی میں ہوا ہے۔ تین طرح کا ٹریڈ رہتا ہے اور ہر ٹریڈ میں 75،75 طالب علموں کا سلیکشن ہوتا ہے۔ اس امتحان میں صرف میتھمیٹکس سے سوال پوچھا جاتا ہے۔ تابش رضا کا کہنا ہے کہ جب میرا سلیکشن ہوا تو مجھ سے زیادہ میرے والدین خوش ہوئے۔ وہ اتنے خوش ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ تابش کا کہنا ہے کہ آئی آئی ٹی ایک الگ فیلڈ ہے اور یہ ایک الگ فیلڈ ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر کافی اچھا ہے لیکن دونوں الگ ہے۔ میرا اس کورس میں داخلہ ہوا جس پر میں بہت خوش ہوں۔

مستقبل کا لائحہ عمل

تابش رضا کے مطابق ڈیٹا سائنس میرا ٹریڈ ہے اب میرا مقصد یہ ہے کہ پہلے تو میں چار سالوں تک اپنی پڑھائی کو کافی بہتر طریقہ سے مکمل کرو۔ مشین لرنینگ، آرٹیفشیل انٹیلیجنس اور ڈیٹا سائنس میرے کورس میں شامل ہے۔ بہت اچھے سے اسے کرنا ہے۔ چار سال کا یہ کورس ہے۔ مشین لرنینگ اور کمپیوٹر پروگرامنگ کے فیلڈ میں مجھے آگے بڑھنا ہے۔ تابش کا کہنا ہے کہ اے آئی یعنی آرٹیفشیل انٹیلیجنس اور مشین لرنینگ کرنا ہے، یہ نیا ہے اور اس فیلڈ میں مجھے کافی بہتر کرنا ہے۔ اب پوری محنت اور کوشش مشین لرنینگ پر ہوگی۔ تابش رضا کے مطابق آئی آئی ٹی جاب کے لیے طلبا کو تیار کرتا ہے اور میرے کورس میں یہ ہے کہ سب کچھ مشین لرنینگ اور آرٹیفشیل انٹیلیجنس کا سکھایا جائے گا۔ دونوں بہتر ہے اور دونوں میں جاب کے مواقع وسیع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے کورس میں آدھے بچے اپنی تعلیم مکمل کر کے ریسرچ کرنے چلے جاتے ہیں اور آدھے بچوں کو کافی اچھا جاب مل جاتا ہے۔

کامیابی  محنت کے ساتھ تربیت کا نتیجہ ہے 


گھر کا ماحول بہت اہم 

تابش رضا کا کہنا ہے کہ ہر بچہ کے لیے اس کے گھر کا ماحول ہی مستقبل میں اس کی شخصیت اور نشوونما میں ایک بڑا رول ادا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس گھر میں تعلیم کا ماحول قائم ہوتا ہے وہاں کے بچہ اپنی زندگی میں بھی کافی بہتر کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنا چاہئے اور تعلیم صرف پیسہ کمانے کے لیے نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بننے کے لیے حاصل کرنا چاہئے۔ تابش رضا کے مطابق ایک بار آپ کو تعلیم سے شغف ہو جائے گا تو یقین مانیے آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ ہو جائے گی، اس کو کوئی روک نہیں سکے گا۔ اس لیے ہر گھر میں تعلیم کا چراغ روشن ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ تابش رضا کا کہنا ہے کہ ان کے والد معاشی طور پر بہت مضبوط نہیں ہیں لیکن انہوں نے میرے تعلیم کو لیکر کافی قربانی کی اور مجھے موٹیوٹ کیا۔ نتیجہ کے طور پر میں کامیاب رہا۔ میرے گھر میں صرف چار لوگ ہیں۔ والدین، ایک بہن اور میں۔ بہن کی بھی شادی ہو چکی ہے۔ تو گھر کا ماحول تعلیم کے معاملہ میں کافی سازگار تھا جس کے سبب کبھی بھی کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی۔

دوسرے بچوں کو پیغام

تابش رضا کا کہنا ہے کہ کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ پڑھائی ہو یا کوئی دوسرا کام، ہر چیز کنسسٹینسی کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر کوئی مسلسل اپنے کام میں لگا رہے تو اسے کامیابی یقیناً ملتی ہے۔ اگر کوئی 6 یا 7 گھنٹہ ہی کافی اچھے سے پڑھتا ہو اور مسلسل پڑھتا رہے تو وہ اپنی منزل پر پہنچ سکتا ہے۔ تابش کا کہنا ہے کہ یہ بات حقیقت ہے کہ کوئی محنت کرے گا تو اس کا پھل ملے گا اس کی گرانٹی ہے۔ جو بچے ابھی تیاری کر رہے ہیں ان کے لیے تابش رضا نے کہا کہ محنت اچھے سے کرنا ہے اور جو پڑھنا ہے کافی اچھے سے پڑھنا ہے۔ کم کرے لیکن بحسن خوبی اس کام کو انجام دے۔ محنت کا پھل ملتا ہی ملتا ہے۔

انسان بننے کے لیے حاصل کرے تعلیم

تابش رضا کا کہنا ہے کہ مسلم سماج کو میں یہ کہنا چاہونگا کہ آپ کوئی بھی کام کر رہے ہوں چاہے وہ تجارت ہو یا کچھ بھی اس کے لیے تعلیم کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ تعلیم صرف آپ کو اچھا پیسہ کما کر نہیں دے گا بلکہ تعلیم آپ کو ایک اچھا انسان بھی بنائے گا۔ اگر آپ پڑھ رہے ہیں تو یہ نہیں سونچے کہ صرف پیسہ کمانے کے لئے پڑھ رہے ہیں بلکہ آپ یہ سونچے کہ ایک اچھا انسان بننا ہے جو دوسروں کی مدد کر سکے اور کسی کے کام آ سکے۔ اگر آپ خود قابل ہیں تو کسی کی مدد کر سکیں گے اور یہی بات سب سے اہم ہوتی ہے۔ ایک اچھا انسان بننے کے لیے تعلیم کی بیحد ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کچھ بھی پڑھیں لیکن پڑھیں ضرور۔ تابش رضا کا کہنا ہے کہ چاہے آپ اردو سے پڑھیں، اسکول میں پڑھیں یا مدرسہ میں پڑھیں لیکن ایک اچھا انسان بننے کے لیے ضرور پڑھیں۔ آج کل پڑھائی ہی سب کچھ ہے اور اس کے لیے ہر قیمت پر آگے بڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔