اقوام متحدہ کی رپورٹ: کرہ ارض پر موسمیاتی تبدیلیوں کا خوفناک نقشہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
آؑ گ کا دریا ہے
آؑ گ کا دریا ہے

 

 

 گرمی تڑپا دے گی۔جھلس جائے گی دنیا۔ اموات کا اندازہ لگانا مشکل ہوجائے گا۔دنیا کے ٹھنڈے ممالک گرم ہوجائیں گے۔پگھل جائیں گے انسانی جسم ۔سورج کی آگ زمین کو چٹخا دے گی۔انسان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

 جی ہاں !یہی ہونے کا خدشہ ہے جس کا اظہار اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے جو کہ اگلے سال دنیا کے سامنے پیش کی جائے گی۔

 انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج (آئی پی سی سی) کی جانب سے چار ہزار صفحوں کی رپورٹ فروری 2022 میں جاری کی جائے گی۔ اقوام متحدہ کے کلائمنٹ سائنس ایڈوائزری پینل کی رپورٹ نے کرہ ارض پر موسمیاتی تبدیلیوں کا خوفناک نقشہ کھینچا ہے۔ 

 اس سے قبل موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کی گئی پیش گوئی میں کہا گیا تھا کہ کاربن سے پیدا ہونے والی آلودگی انسانی برداشت کی حد سے نکلنے میں مزید ایک صدی لے گی۔ لیکن اس موضوع پر حالیہ پیش گوئیوں میں جلد غیرمعمولی ہیٹ ویو (لولگنا) سامنے آنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

اگر دنیا کے موجودہ درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ چار فیصد کا اضافہ ہو تو عالمی آبادی کا 14 فیصد ہر پانچ برسوں میں کم از کم ایک مرتبہ سخت ہیٹ ویو کا شکار ہو گی۔

 ہیٹ ویو میں قابل ذکر اضافہ

 اگر درجہ حرارت میں تبدیلی سے گرمی کی شدت نصف ڈگری تک بڑھتی ہے تو دنیا کی کل آبادی کا مزید ایک ارب 70 کروڑ افراد اس سے متاثر ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق ترقی پزیر دنیا کے بڑے شہر بشمول کراچی، کنشاسا، منیلا، ممبئی اور لاگوس وغیرہ جو خود بھی گرمی میں اضافے کا باعث ہیں اس تبدیلی سے بدترین طور پر متاثر ہوں گے۔

awazurdu

ہیٹ اسٹروک سے ہلاکتیں

 تشویشناک سطح سے کہیں کم گرمی کے باوجود بزرگ اور کمزور افراد پر اس کا مہلک اثر واضح ہے۔ سال 2015میں پاکستان اور انڈیا میں آنے والی دو ہیٹ ویوز میں چار ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں۔ لو لگنے کے ان واقعات میں درجہ حرارت 30 ڈگری سیلسیس کو پہنچا تھا۔ سال2003 میں مغربی یورپ میں 50 ہزار سے زائد اموات کی وجہ بننے والی ہیٹ ویو میں ویٹ بلب ٹمپریچر 20 کے قریب تھا۔ 2019 میں شمالی خطے میں آنے والی ہیٹ ویو بھی اضافی اموات کی وجہ بنی تھی۔ یہ کرہ ارض پر دوسرا گرم ترین سال قرار پایا تھا۔ انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوایشن (آئی ایچ ایم ای) کی تحقیق بتاتی ہے کہ 2019 میں ہیٹ ویو کی وجہ سے دنیا بھر میں تین لاکھ سے زائد اموات ہوئی تھیں۔

 لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی تحقیق کے مطابق ہیٹ ویو سے اموات کا تقریبا 37 فیصد (ایک لاکھ سے زائد) کی وجہ گلوبل وارمنگ بنی تھی۔ کویت، گوئٹے مالا، فلپائن، کولمبیا، پیرو اور برازیل میں یہ تناسب 60 فیصد سے زائد تھا۔ ان اموات میں سے بیشتر ہیٹ سٹرول، ہارٹ اٹیک اور پسینہ پہنے کی وجہ سے ہونے والی پانی کی کمی سے ہوئیں۔ 

awazurdu

کن ممالک کو مہلک گرمی کا خطرہ

 یاد رہے کہ 27 ڈگری سیلسیس سے زائد کی ہیٹ ویو کی تعداد 1979 کے بعد پہلے ہی ڈبل ہو چکی ہے۔ ریمنڈ کے مطالعے میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ اگر صنعتی شعبے سے قبل کے درجہ حرارت میں اڑھادئی ڈگری کا اضافہ ہوتا ہے تو ویٹ بلب ٹمپریچر آئندہ چند دہائیوں میں کچھ مقامات پر35 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر جائے گا۔ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت ایک اعشاریہ ایک فیصد بڑھ چکا ہے۔ سال 2015 میں ہونے والے پیرس معاہدے کے مطابق اس اضافے کو دو درجے سیلسیس یا ڈیڑھ درجے سے کم رکھنے کی کوشش کی جائے۔

 آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق اگر یہ اہداف حاصل کیے جاتے ہیں تو افریقی صحرائی ممالک سمیت، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں 2080 تک ہر برس 30 مہلک گرم دن گزارنے ہوں گے۔ مطالعے کے مرکزی محقق سٹیفن لوہرے کے مطابق’ان خطوں میں شہری آبادی بہت تیزی سے بڑھی ہے اور مہلک گرمی کا خطرہ ان پر منڈلا رہا ہے۔