اقوام متحدہ: اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کی ترجمان اولگا چیرفکو نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور محفوظ راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ اقوامِ متحدہ، غزہ کے شہریوں کی کسی بھی جبری بے دخلی کی مخالفت کرتی ہے اور ایسے کسی منصوبے کی حمایت نہیں کرے گی۔
ایک انٹرویو میں چیرفکو نے کہا: ہم نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ اقوامِ متحدہ غزہ کے شہریوں کی جبری نقل مکانی کے خلاف ہے اور ہم فلسطینیوں کی ایسی کسی جبری بے دخلی کا ساتھ نہیں دیں گے۔ غزہ میں امداد کی تقسیم کے لیے امریکہ کی جانب سے تجویز کردہ نئے منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ امداد کی فراہمی ہر حال میں انسانی اصولوں، غیر جانبداری، اور منصفانہ تقسیم کے تقاضوں کے تحت ہونی چاہیے تاکہ حقیقی ضرورت مندوں تک یہ امداد بلا کسی خطرے کے پہنچ سکے۔
انھوں نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور شہریوں کو فوری امداد تک رسائی دینے پر زور دیا۔ چیرفکو کے مطابق، غزہ میں انسانی ضروریات اپنی انتہائی سطح تک پہنچ چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورا غزہ خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے اور حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہو رہے ہیں۔ ادھر امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ ایک نیا ادارہ جلد ہی غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کی ذمہ داری سنبھالے گا۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق، اس منصوبے میں دو مراحل ہوں گے: پہلے مرحلے میں 12 لاکھ افراد کو امداد دی جائے گی، جب کہ دوسرے مرحلے میں باقی 10 لاکھ فلسطینی شامل کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کی نگرانی غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن نامی ایک نیا ادارہ کرے گا، جس کے سربراہ کے طور پر سابق نوبیل انعام یافتہ اور سابق ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی کا نام لیا جا رہا ہے۔
منصوبے کے تحت غزہ میں چار امدادی مراکز قائم کیے جائیں گے، جن میں سے ہر ایک تین لاکھ افراد کو امداد فراہم کرے گا۔ اس امداد میں خوراک، دوائیں، صاف پانی اور صفائی کی اشیاء شامل ہوں گی۔ امداد کی ترسیل محفوظ راستوں اور آزاد سکیورٹی ٹیموں کی نگرانی میں کی جائے گی، اور اس میں کسی بھی اسرائیلی فوجی کی مداخلت نہیں ہو گی۔
یہ منصوبہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ابھی باضابطہ طور پر منظور نہیں ہوا، لیکن اس کا مقصد غزہ میں امدادی سرگرمیوں کو شفاف، آزاد، اور مؤثر بنانا ہے تاکہ امداد کے راستے میں حائل رکاوٹیں ختم کی جا سکیں۔ یاد رہے کہ 2 مارچ سے اسرائیل کی جانب سے دوبارہ حملوں کے آغاز کے بعد غزہ میں کسی بھی انسانی امداد کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، جہاں تقریباً 24 لاکھ فلسطینی محصور ہیں۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ محاصرہ حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے تاکہ وہ 7 اکتوبر 2023 سے زیر حراست یرغمالیوں کو رہا کرے۔ اسرائیل نے حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے، جسے حماس نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ محض اہلِ غزہ کو بھوکا رکھنے کا جواز ہے۔