یوکرین بحران: بائیڈن ہر پل پوتن سے ملاقات کے لیے تیار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-02-2022
یوکرین بحران: بائیڈن ہر پل پوتن سے ملاقات کے لیے تیار
یوکرین بحران: بائیڈن ہر پل پوتن سے ملاقات کے لیے تیار

 

واشنگٹن : امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اتوار کہا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر جنگی کشیدگی ختم کرنے کے لیے صدر جوبائیڈن ’کسی بھی وقت‘ اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن کے ساتھ ملاقات پر تیار ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ روس ہمسایہ ملک یوکرین پر حملے کے قریب پہنچ چکا ہے۔

بلنکن نے نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا: ’جو کچھ ہمیں دکھائی دے رہا ہے وہ انتہائی سنجیدہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم (روسی) حملے کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ’لیکن جب تک ٹینک حرکت میں نہیں آتے اور طیارے پرواز نہیں کرتے ہم ہر موقعے اور ہر لمحے کو کام میں لائیں گے، یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا سفارت کاری اب بھی صدر پوتن کو آگے بڑھنے سے روک سکتی ہے۔

بلنکن نے سی بی ایس ٹیلی ویژن کے پروگرام ’فیس دا نیشن‘ میں بتایا کہ صدر بائیڈن ’بہت واضح کر چکے ہیں کہ اگر اس سے جنگ کو روکنے میں مدد ملتی ہے تو وہ کسی بھی وقت اور لمحے پوتن سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔‘ ’روس یورپ کو بدترین لڑائی میں دھکیل رہا ہے‘ دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ روس دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو بدترین لڑائی میں دھکیلنے کی تیاری کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں روس کو عالمی مالیاتی نظام سے باہر نکال دیا جائے گا۔

جرمنی کے شہر میونخ میں عالمی سکیورٹی کانفرنس کے موقعے پر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو اتوار کو نشر ہونے والے انٹرویو میں بورس جانسن نے کہا کہ ’حقیقت یہ کہ تمام آثار ایسے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایک طرح سے منصوبے پر پہلے ہی عمل شروع ہو چکا ہے۔‘ جانسن کا کہنا تھا کہ حملے کے روسی منصوبے کے تحت اس کی فوج صرف باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی علاقے سے یوکرین میں داخل نہیں ہو گی بلکہ شمال کی طرف بیلاروس سے داخل ہو کر دارالحکومت کیف کو گھیرے میں لے لے گی۔

اس سلسلے میں برطانوی وزیر اعظم نے امریکہ کی ان خفیہ اطلاعات کا حوالہ دیا جو صدر بائیڈن نے مغربی ملکوں کے رہنماؤں تک پہنچائیں۔ جانسن کے بقول: ’جنگ کے نتیجے میں لوگوں کو انسانی جانوں کی بڑی قیمت کو سمجھنا چاہیے۔‘ اس سے پہلے انہوں نے اشارہ دیا کہ روسی حملے کے بعد مغربی ملک کسی بھی یوکرینی مزاحمت کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ’مجھے یہ کہتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا ہے کہ جو منصوبہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ اپنے پیمانے کے اعتبار سے کسی ایسی چیز کے لیے ہے جو 1945 کے بعد سے یورپ کی سب سے بڑی جنگ ہو سکتی ہے۔

مشرقی یوکرین میں روس کی جوہری مشق، کشیدگی میں اضافہ یوکرینی فوجیوں اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان رابطہ لائن کے قریب توپ کے سینکڑوں گولے داغے گئے جب کہ ہزاروں لوگ مشرقی یوکرین سے نکل گئے ہیں جس کی وجہ سے اتوار کو ان خدشات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ عدم استحکام کے علاقہ روسی حملے کا سبب بن سکتا ہے۔

 مغربی ملکوں نے خبردار کیا ہے کہ روس ہمسایہ ملک پر حملے کے تیار ہے جسے ڈیڑھ لاکھ روسی فوجیوں جنگی طیاروں کو ہتھیاروں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ روس نے ہفتے کو ہمسایہ ملک بیلاروس میں ایٹمی مشقیں کی ہیں۔ بحیرہ اسود میں ساحل کے قریب روسی بحریہ کی مشقیں بھی جاری ہیں۔

امریکہ اور کئی یورپی ممالک کئی ماہ سے الزام لگا رہے ہیں کہ روس یوکرین حملہ کرنے کے بہانے بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان ملکوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو روس پر فوری پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے روسی صدر ولادی میر پوتن پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں دونوں رہنما مل کر بحران کو حل کرنے کی کوشش کر سکیں۔

روس نے حملے کے منصوبے کی تردید کی ہے۔ جرمنی کے شہر میونخ میں ہفتے کو عالمی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں یوکرین کے صدر نے کہا ’یوکرین پرامن تصفیے کے لیے صرف سفارتی راستے پر گامزن رہے گا۔‘کریملن کے جانب سے یوکرین کے بیان کے حوالے سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ’تاہم یورپی کے یونین کے بڑے عہدے دار چارلزمشیل کا اتوار کو کہنا ہے کہ’بڑا سوال موجود ہے۔ کیا کریملن مذاکرات چاہتا ہے۔

یورپی کونسل کے صدر مشیل میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں نے کہا کہ’ہم ہمیشہ امن کی پیشکش نہیں کر سکتے جب کہ روس میزائل تجربات اور فوجی جمع کرنے میں مصروف ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ایک بات یقینی ہے کہ مزید فوجی جارحیت کی گئی تو ہم بڑی پابندیوں کے ساتھ ردعمل کا اظہار کریں گے۔

ہفتے کو مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند رہنماؤں نے مکمل فوجی نقل وحرکت کا حکم دیا اور مزید شہریوں کو روس بھیج دیا۔ اس مقصد کے لیے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں تقریباً سات لاکھ پاسپورٹ جاری کیے گئے۔

یہ دعویٰ کہ روسی شہریوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے فوجی کارروائی کا جوازکے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان خدشات کے پیش نظر کہ چند دن میں جنگ شروع ہو سکتی ہے، جرمنی اور آسٹریا نے اپنے شہریوں کو یوکرین چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔ جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا نے دارالحکومت کیف اور اودیسا کے لیے پروازیں منسوخ کر دیں بحیرہ اسود کی بندرگاہ اودیسا جو حملے کی صورت میں ایک اہم ہدف ہو سکتی ہے۔

کیف میں نیٹو کے رابطہ دفتر نے کہا ہے کہ وہ اپنا عملہ برسلز اور مغربی یوکرین کے شہرلیویو منتقل کر رہا ہے۔ روس کے لیے حملے کے لیے تیار ہونے کے بارے میں امریکی وزیر دفاع لائیڈآسٹن نے ہفتے کو کہا ہے کہ وہ’کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور اب حملے کے لیے تیار ہیں۔

ایک امریکی فوجی عہدے دار کا کہنا ہے کہ اندازے کے مطابق ان زمینی روسی افواج میں سے 40 سے 50 فیصد سرحد کے قریب حملہ کرنے والے مقامات پر منتقل ہو چکی ہیں۔ امریکی فوجی عہدے دار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ تبدیلی تقریباً ایک ہفتے سے جاری ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوتن نے حملہ کر دیا ہے۔

یوکرین کے اعلیٰ فوجی حکام مشرقی یوکرین میں تقریباً آٹھ سال سے جاری علیحدگی پسند تنازعے کے محاذ کے دورے کے موقعے پر گولہ باری کی زد میں آ گئے۔ علاقے کا دورہ کرنے والے اے پی کے نمائندے کے مطابق علاقے سے نکلنے سے پہلے یوکرینی فوجی حکام بم حملے سے بچنے کے بنائی گئی پناہ میں چلے گئے۔

کسی دوسرے مقام پر اگلے موچوں پر موجود یوکرینی فوجیوں کا کہنا تھا کہ انہیں گولہ باری کا جواب دینے کا حکم نہیں تھا۔ یوکرین کے ڈونیٹسک علاقے میں روس نواز علیحدگی پسند حکومت کے سربراہ ڈینس پشیلین نے ہتھیاراٹھانے کی کال میں یوکرینی فوج کی جانب سے’جارحیت کے فوری خطرے‘ کا حوالہ دیا۔

یوکرینی حکام نے سختی سے تردید کی وہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقے طاقت کے ذریعے واپس لینے کا اردہ رکھتے ہیں۔ یوکرین کی سرحد کے قریب واقع رستوف کے علاقے میں حکام نے یوکرین سے لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد کے پیش نظر ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہ