عرب اور خلیجی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے سفارتی تعلقات میں ایک نئی کڑی جڑ گئی ہے۔ اب متحدہ عرب امارات کی کابینہ نے اسرائیل کے شہر تل ابیب میں سفارتخانہ کھولنے کی منظوری دے دی ہے۔ عرب امارات کی حکومت نے ٹوئٹر پر کابینہ کے فیصلے کا اعلان کیا ہے۔عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ سال اگست میں تاریخی معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات استوار ہوئے تھے۔یاد رہے کہ اس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ معاہدے پر دستخط کے بعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی طرف سے مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اس تاریخی سفارتی پہل سے مشرق وسطیٰ میں امن کو فروغ ملے گا۔
یہ معاہدہ تین رہنماؤں کی دلیرانہ سفارتکاری اور دور اندیشی کا ثبوت ہے۔ اس معاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ایک نئے راستے پر چلنا چاہتے ہیں جس سے خطے کی بھرپور صلاحتیں بروئے کار آئیں گی۔‘ تاریخی معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی شعبوں میں تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ سفارتی تعلقات معمول پر آنے کے ایک مہینے بعد گزشتہ سال اکتوبر میں امارات کی پہلی پرواز تل ابیب کے قریبی ایئرپورٹ بن گوریان پہنچی تھی۔ واپسی پر اتحاد ایئرویز کی پرواز میں اسرائیلی سیاحت کے ماہرین سوار ہوئے تھے جنہوں نے دو دن متحدہ عرب امارات میں گزارے تھے۔ متحدہ عرب امارات سے پہلے مصراور اردن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق رکھنے والے واحد عرب ممالک تھے۔اگست میں عرب امارات کے اعلان کے بعد بحرین، سوڈان اور مراکش نے بھی سفارتی تعلقات اور مواصلاتی رابطے استوار کرنے اعلان کر دیا تھا۔ ٹرمپ کے دور میں عالم اسلام کے اہم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور سیاسی تعلقات کو بہتر بنایا تھا اور ایک نئےماحول کی راہ ہموار کی تھی۔