طالبان کے بعد ملک سے فرار، لوٹ رہے ہیں اسمگلر

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-02-2022
طالبان کے بعد ملک سے فرار، لوٹ رہے ہیں اسمگلر
طالبان کے بعد ملک سے فرار، لوٹ رہے ہیں اسمگلر

 

 

کابل: طالبان کی جانب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغان خاتون وکیل شفیقہ سائے بھی ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے ملک چھوڑنے میں عافیت جانی تاہم شفیقہ کو معلوم نہیں تھا کہ اس قدم کی قیمت کیا ہو گی۔

  افغانستان سے نکلنے والوں کی پریشانی کا فائدہ بارڈر پار کرانے والے اسمگلرز بھی اٹھا رہے ہیں۔ 15 اگست کو طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے پاکستان کی طرف آنے والوں نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر بھی الزام لگایا ہے کہ انہوں نے بھی رشوت وصول کی جبکہ کچھ مالکان نے دو سے تین گنا کرائے وصول کیے۔

شفیقہ نے اسلام آباد میں روئٹرز کو بتایا کہ ’ہر کوئی ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھا کر پیسے بنانے کے چکر میں ہے۔‘ طالبان کے آنے کے بعد ملک چھوڑنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تاہم پاکستان، ایران اور دوسرے پڑوسی ممالک کی جانب سے بارڈرز کی بندش اور پاسپورٹ و ویزہ کے حصول میں دشواریوں کے باعث بہت سے لوگ سمگلرز سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔

اسمگلرز کی وساطت سے سفر کرنے والوں کو خطرات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ انہیں پہاڑوں، صحراؤں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ ایسی سرنگوں سے بھی جو بارڈر پر لگی باڑ کے نیچے سے گزرتی ہیں، جبکہ کچھ لوگ نکلنے کے لیے جعلی شناختی کارڈز بھی استعمال کرتے ہیں۔ سمگلرز کی وصولیوں پر نظر رکھنے والے مکسڈ مائیگریشن سنٹر کا کہنا ہے کہ کورونا کے دوران بھی اسمگلرز نے فیس بہت زیادہ بڑھائی کیونکہ اس وقت آنا جانا مزید مشکل ہوا تھا تاہم پچھلے سال 15 اگست کے بعد افغانستان میں اسمگلنگ سے جڑے معاملات کی رقوم آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ 26 سالہ سائے کابل سے اپنی والدہ اور سات بہن بھائیوں کے ساتھ فرار ہوئیں اور اس کے لیے ایک غیرملکی نے سمگلرز کو پانچ ہزار ڈالر ادا کیے۔

شفیقہ کے خاندان کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے، جو کہ زیادہ تر شیعہ افراد پر مشتمل ہے جبکہ طالبان کے پچھلے دور حکومت 1996 سے 2001 تک، ان کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ طالبان کے طاقت میں آنے پر شفیقہ کو زندگی کے لیے خطرات کا احساس ہوا، کیونکہ انہوں نے نہ صرف ماضی میں کئی طالبان کو سلاخوں کے پیچھے بھجوایا تھا بلکہ وہ طالبان کے خلاف احتجاج میں بھی پیش پیش رہیں جبکہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی سرگرم رہیں۔ کابل چھوڑنے سے قبل شفیقہ کی والدہ کے ہاتھ پر جعلی کینولا اور ڈرپ لگائی گئی۔

 پاکستان کی جانب سے اب بھی ویزے کے بغیر علاج کے لیے پاکستان آنے کی اجازت ہے اور شفیقہ کے خاندان کو امید تھی کہ بارڈ گارڈز ان پر رحم کھائیں گے۔ اس حربے نے کام کیا تاہم یہاں بھی کچھ لوگوں کی جیبوں میں مزید ڈالر گئے، بارڈر پار کرتے ہی رشوت کے تقاضے مزید بڑھ گئے، راستے میں 14 چیک پوسٹیں تھیں جبکہ ان کے پاس فقط تین سو ڈالر تھے۔

شفیقہ نے بتایا کہ اسلام آباد میں ان کا مالک مکان ان سے تین گنا زائد کرایہ وصول کر رہا ہے۔ انہوں نے 700 ڈالر ان کو پولیس دینے کے لیے بھی ادا کیے کیونکہ افغانوں کو ویزے کے بغیر کرائے پر گھر دینا غیرقانونی ہے۔

جنیوا میں قائم مکسڈ مائیگریشن سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سپین بولدک سے پاکستان آنے والے افغانوں سے 140 سے 193 ڈالر وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل تک یہ رقم 90 ڈالر تھی، اسی طرح ایران جانے کی فیس 360 سے 400 ڈالر تک ہے جبکہ پہلے یہ 250 ڈالر تھی۔