شام - اسد حکومت کے زوال کے بعد پہلے انتخابات مکمل

Story by  اے این آئی | Posted by  [email protected] | Date 06-10-2025
شام - اسد حکومت کے زوال کے بعد پہلے انتخابات مکمل
شام - اسد حکومت کے زوال کے بعد پہلے انتخابات مکمل

 



 دمشق : شام میں اسد حکومت کے زوال کے بعد پہلی پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں ووٹوں کی گنتی اتوار کی شب دیر تک جاری رہی اور ملک بھر میں بیلٹ باکس بند کر دیے گئے، سی این این کے مطابق انتخابات کے ترجمان نوار نجمہ نے شام کی سرکاری ٹی وی 'الاخباریہ' کو بتایا کہ تمام پولنگ مراکز میں ووٹنگ مکمل ہو گئی ہے۔ حتمی نتائج پیر کو متوقع ہیں۔

ابتدائی نتائج کے مطابق ادلب، دیر الزور اور دمشق کے دیہی اضلاع سے کسی خاتون امیدوار کی جیت نہیں ہوئی، جس کے پیش نظر خواتین کے لیے 20 فیصد کوٹہ صدر احمد الشراء کے ذریعے براہِ راست ایک تہائی نشستوں میں پورا کیا جائے گا۔

دمشق کے نیشنل لائبریری پولنگ سینٹر میں ووٹنگ کے عمل کی نگرانی کرتے ہوئے الشراء نے انتخابات کو "شامی عوام کے لیے تاریخی لمحہ" قرار دیا اور کہا کہ چند ماہ کے عرصے میں ملک نے ایک ایسا انتخابی عمل منظم کیا جو "اس مرحلے کی حقیقتوں کے مطابق" ہے۔

الشراء نے کہا، "یہ لمحہ تمام شامیوں کے لیے اہم ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم مل کر اپنے ملک کی تعمیر نو کریں۔"

نجمہ نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ووٹنگ ایک نئے عارضی انتخابی فریم ورک کے تحت ہو رہی ہے جو الشراء کی جانب سے جاری حکم نامے کے ذریعے اس سال طے کیا گیا تھا۔ اس حکم نامے کے تحت 10 رکنی قومی انتخابی کمیٹی تشکیل دی گئی اور عبوری مدت کے لیے نئے قواعد وضع کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق انتخابات میں 210 پارلیمانی نشستیں بھری جائیں گی، جس میں دو تہائی اراکین مقامی اداروں کے ذریعے منتخب ہوں گے اور ایک تہائی نشستیں صدر کے ذریعے براہِ راست تفویض کی جائیں گی۔ نشستیں آبادی کے تناسب اور سماجی نمائندگی کے مطابق تقسیم کی گئی ہیں۔

پارلیمنٹ کے اہم کاموں میں ملک کے لیے نیا آئین تیار کرنا اور اگلی مدت میں براہِ راست عوامی انتخابات کے لیے تیاری شامل ہوگی۔

سی این این کے مطابق انتخابی مہم میں 1,578 امیدواروں کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی، جن میں 14 فیصد خواتین شامل تھیں۔ حکام نے کہا کہ حتمی ووٹر فہرست میں سابقہ حکومت سے وابستہ افراد کو خارج کیا گیا ہے۔

تاہم، تمام صوبے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔ سی این این کے مطابق راقہ اور الحسکہ کے بیشتر علاقوں میں "سکیورٹی اور لاجسٹک چیلنجز" کی وجہ سے ووٹنگ ملتوی کر دی گئی ہے اور السویدہ کے تمام حلقے تب تک خالی رہیں گے جب تک "مناسب حالات" فراہم نہ ہوں۔

راقہ اور الحسکہ پر کرد قیادت والی YPG فورسز کا کنٹرول ہے، جبکہ السویدہ میں ڈروز گروپس حاکم ہیں جو مذہبی رہنما حکمت الحجری کے وفادار ہیں۔ یہ تینوں علاقے مرکزی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں۔

انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب حلب کے نزدیک عبوری حکومت کی فورسز اور امریکہ کے حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF) کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ایس ڈی ایف مشرقی شام میں کام کر رہی ہے اور پچھلے دس سال سے داعش کے خلاف لڑ رہی ہے۔ یہ گروپ کرد، عرب اور مسیحیوں پر مشتمل ہے۔

انہیں دمشق کی حمایت یافتہ نئی شامی فوج میں شامل ہونا تھا، لیکن یہ عمل مکمل نہیں ہوا، اس لیے ایس ڈی ایف کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں انتخابات نہیں ہو رہے۔ ترکی کے زیرِ کنٹرول تل ابیض میں بھی انتخابات نہیں ہوئے، رپورٹ کے مطابق جیرونل پوسٹ۔

ادھر احمد الشراء تقریباً 60 سال میں پہلے شامی رہنما بنے جنہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے شام پر عائد پابندیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور وعدہ کیا کہ خونریزی کے ذمہ دار افراد اور اسد کے تحت ہونے والے مظالم میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔