پشاور مسجد میں خودکش حملے۔ داعش نے لی ذمہ داری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-03-2022
پشاور مسجد میں خودکش حملے۔ داعش نے لی ذمہ داری
پشاور مسجد میں خودکش حملے۔ داعش نے لی ذمہ داری

 

 

پشاور : پاکستان کے شہر پشاور میں جمعے کی نماز کے دوران شیعہ مسلک کی مرکزی جامع مسجد پر 56 افراد کی جان لینے والے خودکش حملے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے قوبل کر لی ہے۔ 

 داعش نے اپنی پروپیگنڈا ویب سائٹ عماق پر جاری ایک بیان میں کہا: ’آج داعش کا ایک جنگجو پشاور میں شیعہ مسجد پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوا۔‘ پشاور کے قصہ خوانی بازار کے قریب کوچہ رسالدار میں واقع شیعہ مسلک کی مرکزی جامع مسجد کو جمعے کو ایک خودکش بمبار نے نماز کے دوران نشانہ بنایا۔ شہر کے مرکزی لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان کے مطابق حملے میں 56 افراد ہلاک ہوئے اور 194 سے زائد زخمی۔

حملے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی اور وزیر اعظم عمران خان نے پوری قوت سے حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا پیچھا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ پولیس اہلکار اور ریسکیو ٹیموں نے موقعے پر پہنچ کر امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔

عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں نے پہلے فائرنگ اور پھر دستی بم پھینکے۔ عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟ ’نمازی نماز کے لیے کھڑے ہی ہونے والے تھے کہ حملہ آور نے پہلے فائرنگ کر دی اور اس کے بعد مسجد دھماکے کی آواز سے گونج اٹھی۔ یہ کہنا تھا عینی شاہد محمد طاہر کا جو دھماکے کے وقت مسجد کے اندر موجود تھے۔

محمد طاہر نے بتایا: ’جمعے کا خطبہ چل رہا تھا کہ سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نے پہلے گیٹ کے پاس فائرنگ کی اور اس کے بعد مسجد میں گھس کر دھماکہ کر دیا۔‘ طاہر نے بتایا: ’جب دھماکہ ہوا تو افراتفری پھیل گئی۔ یہ علاقہ گنجان آباد ہے تو یہاں کے لوگوں اور بازار کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنا شروع کردیا۔‘ ان کے بقول: ’ہم نے رکشوں اور لوگوں سے لفٹ مانگ کر زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا کیونکہ اس وقت انتظامیہ یا ریسکیو والے نہیں پہنچے تھے۔‘ ’قیامت صغری کا منظر تھا۔

ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ لوگوں کے اعضا زمین پر پڑے تھے۔ کوئی سانسیں لے رہا تھا تو کوئی جاں بحق ہوا تھا۔‘ دھماکے کے زیادہ تر زخمیوں کو قصہ خوانی بازار کے قریب لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ یہ مسجد قصہ خوانی بازار کے اندر کوچہ رسالدار نامی گلی میں واقع ہے جہاں مسلک اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ عینی شاہد محمد طاہر کے مطابق یہ اس علاقے کی بڑی مسجد ہے اور جمعہ کی نماز میں یہاں بہت رش ہوتا ہے۔

جس گلی میں یہ مسجد واقع ہے وہاں گاڑی نہیں پہنچ سکتی اور یہی وجہ ہے کہ ریسکیو 1122 کے مطابق انہیں زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں دشواری پیش آئی۔ ریسکیو 1122 کے اہلکار ناصر خان نے بتایا: ’جتنا ممکن ہو سکتا تھا ہم نے کوشش کی ہے کہ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا ’گلی تنگ ہونے کی وجہ سے ایمبولینس وہاں نہیں پہنچ سکتیں، اس لیے ہمیں سٹریچر پر کچھ فاصلہ طے کر کے زخمیوں کو ایمبولینس منتقل کرنا پڑتا تھا۔‘ جس گلی میں یہ دھماکہ ہوا ہے وہاں پر زیادہ تر زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین موجود تھے۔ جن میں بعض زارو قطار رو رہے تھے۔ مسجد کے اندر میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں تھی تاہم باہر سے بظاہر لگ رہا تھا کہ مسجد کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ مسجد کی کھڑکیاں اور شیشے ٹوٹے ہوئے نظر آرہے تھے جو زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ جبکہ نماز کے لیے سر پر رکھی جانے والی کچھ ٹوپیاں بھی زمین پر پڑی تھیں جن پر خون کے نشانات نظر آ رہے تھے۔