سعودی عرب اور امریکہ میں 300 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے، ریاض میں نئی اقتصادی شراکت داری کی بنیاد

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-05-2025
سعودی عرب اور امریکہ میں 300 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے، ریاض میں نئی اقتصادی شراکت داری کی بنیاد
سعودی عرب اور امریکہ میں 300 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے، ریاض میں نئی اقتصادی شراکت داری کی بنیاد

 



ریاض :سعودی-امریکہ سرمایہ کاری فورم نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کی نئی راہیں کھول دی ہیں، جہاں 300 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے تجارتی، دفاعی، اور سائنسی معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی کہ امریکہ کے ساتھ یہ معاہدے سعودی وژن 2030 کے تحت کیے گئے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان معاشی شراکت کو مزید مستحکم کریں گے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اس وقت 600 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری مواقع پر غور کر رہا ہے، جن کی مالیت مستقبل میں ایک کھرب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ ان کے مطابق امریکہ وژن 2030 کے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے، اور پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) کی عالمی سرمایہ کاری کا تقریباً 40 فیصد امریکہ میں ہے۔

ولی عہد نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کا تعلق صرف معاشی مفادات تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد خطے اور دنیا میں امن و استحکام کو فروغ دینا بھی ہے۔

اس فورم کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باقاعدہ طور پر اسٹریٹجک اقتصادی شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے۔ عرب نیوز کے مطابق اس شراکت داری میں توانائی، معدنیات، دفاع، خلا، اور صحت عامہ جیسے شعبے شامل ہیں۔

معاہدوں کی تفصیلات کے مطابق:

  • دفاعی شعبے میں معاہدوں کا مرکز سعودی افواج کی صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔

  • سعودی خلائی ایجنسی اور ناسا کے درمیان بھی تعاون کا معاہدہ طے پایا ہے۔

  • معدنی وسائل سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت، محکمہ انصاف کے ساتھ ایک اشتراکی معاہدہ، اور متعدی بیماریوں پر اشتراک عمل بھی اس میں شامل ہے۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ریاض کے قصر الیمامہ میں دونوں رہنماؤں کی قیادت میں اعلیٰ سطحی مذاکرات بھی ہوئے، جن میں باہمی دلچسپی کے علاقائی و عالمی امور اور دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر بات چیت ہوئی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل کے روز سعودی عرب کے دورے پر ریاض پہنچے، جسے انہوں نے مشرق وسطیٰ کا "تاریخی دورہ" قرار دیا۔ سعودی ولی عہد نے کنگ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ جیسے ہی "ایئر فورس ون" سعودی فضائی حدود میں داخل ہوا، رائل سعودی ایئر فورس کے F-15 طیاروں نے اسے اعزازی اسکواڈ فراہم کیا۔

ایئرپورٹ سے شاہی محل پہنچنے پر صدر ٹرمپ اور ان کے وفد کو عربی روایتی قہوہ پیش کیا گیا۔ بعد ازاں دونوں رہنماؤں نے ظہرانے میں شرکت کی اور عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں اعلیٰ سعودی اور امریکی مشیروں سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس دورے کا ایک اہم پہلو غزہ کی جنگ بھی رہا، جس کا تاثر صدر ٹرمپ کے بیانات اور اقدامات میں نمایاں تھا۔ دورہ سعودی عرب سے قبل جب صدر ٹرمپ اپنے طیارے میں سوار ہو رہے تھے، اسی وقت اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا — جسے صدر نے "ایک بڑی خبر" قرار دیا۔ انہوں نے کہا، "وہ اپنے والدین کے پاس واپس آ رہا ہے، جنہیں یقین ہو چلا تھا کہ وہ مر چکا ہے۔"

اگرچہ صدر ٹرمپ نے منصب سنبھالنے سے قبل غزہ تنازع کے فوری حل کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب وہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر سرد مہری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان غزہ، یمن میں حوثی باغیوں پر حملوں اور ایران کے جوہری پروگرام جیسے امور پر اختلافات واضح ہو چکے ہیں۔

اس کے باوجود، صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر مذاکرات میں "اچھی پیش رفت" ہو رہی ہے، مگر انہوں نے واضح کیا کہ "ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"

ریاض میں ہونے والے اس اعلیٰ سطحی فورم اور ملاقاتوں نے نہ صرف سعودی-امریکہ تعلقات کو نئی توانائی دی ہے بلکہ خطے میں بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات میں ان دونوں طاقتوں کی اسٹریٹجک مطابقت کو بھی اجاگر کیا ہے۔